ایک شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ اگر تم اپنے باپ کے گھر گئی تو جب بھی اور جس جگہ بھی تم واپس میرے پاس لوٹ آؤگی تو تجھے کلما کی طلاق ہے، تو کیا کچھ عرصہ بعد یعنی آٹھ مہینہ بعد اگر وہ شوہر کے گھر واپس آتی ہے تو طلاقِ کلّما واقع ہوگی؟ اور زندگی بھر میں اگر یہ شخص اس عورت سے دوبارہ نکاح کرنا چاہتا ہے تو نکاح ہوجائے گا؟ اور مذکورہ عورت اس کی بیوی رہے گی؟
صورتِ مسئولہ اگر واقعۃً مذکورہ شخص نے اپنی بیوی سے یہ کہا کہ : ”اگر تم اپنے باپ کے گھر گئی تو جب بھی اور جس جگہ بھی تم واپس میرے پاس لوٹ آؤگی تو تجھے کلما کی طلاق ہے“ تو ایسی صورت میں اس کی بیوی کی طلاق اپنے والد کے گھر جاکر واپس اس شخص کے پاس آنے پر معلّق ہوگئی تھی، اس کے بعد اگر مذکورہ شخص کی بیوی اپنے والد کے گھر چلی گئی اور اس کے بعد واپس اس کے پاس آگئی تو اس پر ایک طلاق رجعی واقع ہوگئی ہے، اور شوہر کو بیوی کی عدت (مکمل تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو اور حمل کی صورت میں بچہ کی پیدائش تک) میں رجوع کا حق حاصل ہوگا، اگر عدت کے دوران رجوع کرلیا تو دونوں کا نکاح برقرار رہے گا، اور رجوع کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ مرد اپنی بیوی کو زبان سے کہہ دے کہ : ”میں نے رجوع کرلیا“ ،اس سےرجوع ہوجائے گا اوراس رجوع پر دو گواہ بنالینا مستحب ہے۔
اگر بیوی کی عدت میں رجوع نہیں کیا یعنی طلاق کے بعد عدت کی تیسری ماہ واری گزرگئی تو اس صورت میں دونوں کا نکاح ختم ہوجائے گا، اور مطلّقہ دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی، البتہ اگر دونوں میاں بیوی باہمی رضامندی سے دوبارہ ایک ساتھ ہی رہنا چاہیں تو شرعی گواہان کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرکے رہ سکتے ہیں ، اگر شوہر نے اس سے پہلے کوئی طلاق نہ دی ہو تو رجوع یا تجدید نکاح کے بعد آئندہ کے لیے شوہر کو دو طلاق کا حق حاصل ہوگا۔
نیز ایک مرتبہ طلاق واقع ہونے کے بعد یہ قسم پوری ہوجائے گی، اس کے بعد شوہر کے رجوع یا تجدید نکاح کے بعد جب مذکورہ شخص کی بیوی اپنے والد کے گھر جاکر دوبارہ اس کے پاس آئے گی تو مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی، باقی مذکورہ شخص نے جو یہ الفاظ کہے ہیں کہ :”... تجھے کلّما کی طلاق “ ہے تو صرف یہ لفظ کہنے سے یہ کلّما کی طلاق نہیں بنے گی، کلّما کی طلاق معلّق ہونے کے لیے وہ الفاظ ضروری ہوتے ہیں جو کلّما کے متعلقات کا مفہوم ادا کرتے ہیں، محض لفظ کلّما کہنے کا اعتبار نہیں ۔
الأصل لمحمد بن الحسن میں ہے :
"لو قال: إذا دخلت الدار فأنت طالق، ومتى ما دخلت الدار فأنت طالق، وإنما يقع عليها الطلاق إذا دخلت الدار مرة واحدة. وإذا قال: كلما دخلت الدار فأنت طالق، فكلما دخلت الدار وهي ملكه فهي طالق."
(كتاب الطلاق، باب الطلاق لغير السنة،4/ 471، ط:دار ابن حزم، بيروت)
الاختيار لتعليل المختار میں ہے :
"وألفاظ الشرط: " إن " و" إذا " و" إذا ما " و" متى " و" متى ما " و" كل " و" كلما "، فإذا علق الطلاق بشرط وقع عقيبه وانحلت اليمين وانتهت إلا في " كلما "، ولا يصح التعليق إلا أن يكون الحالف مالكا كقوله لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق."
(كتاب الطلاق، تعليق الطلاق، 3/ 140، ط: دار الكتب العلمية)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
" ألفاظ الشرط إن وإذا وإذما وكل وكلما ومتى ومتى ما،ففي هذه الألفاظ إذا وجد الشرط انحلت اليمين وانتهت لأنها تقتضي العموم والتكرار فبوجود الفعل مرة تم الشرط وانحلت اليمين فلا يتحقق الحنث بعده إلا في كلما لأنها توجب عموم الأفعال."
(کتاب الطلاق، الباب الرابع فی الطلاق بالشرط، الفصل الأول في ألفاظ الشرط، 1/ 415، ط:رشیدیة)
فتاوی شامی میں ہے:
"وفي حاشية للخير الرملي عن جامع الفصولين أنه ذكر كلاما بالفارسية معناه إن فعل كذا تجري كلمة الشرع بيني وبينك ينبغي أن يصح اليمين على الطلاق لأنه متعارف بينهم فيه. اهـ. قلت: لكن قال في [نور العين] الظاهر أنه لا يصح اليمين لما في البزازية من كتاب ألفاظ الكفر: إنه قد اشتهر في رساتيق شروان أن من قال جعلت كلما أو علي كلما أنه طلاق ثلاث معلق، وهذا باطل ومن هذيانات العوام اهـ."
(كتاب الطلاق، باب صريح الطلاق، 3/ 247، ط:سعيد)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144512101049
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن