بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 رجب 1446ھ 20 جنوری 2025 ء

دارالافتاء

 

اگر تم اپنے میکے گئی تو تمہیں وہیں تین لفظ ہوں گے سے طلاق واقع ہوگی؟


سوال

مسئلہ یہ ہے کہ اگر شوہر نے بیوی سے غصے میں کہا کہ ”اگر تم اپنے میکے گئی تو تمہیں وہیں تین لفظ ہوں گے“ اور تین لفظ سے اس کی مراد طلاق کی ہی تھی، اس کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ طلاق بائن کیا ہوتی ہے؟ایک وقت میں کتنی طلاق دینی چاہیے؟ اس وقت یہ بات بول کر  ”اگر تم میکے گئی تو تمہیں وہیں تین لفظ ہوں گے“ اس سے اس کی نیت طلاق کی ہی تھی،  اس عورت کا میکہ  لاہور میں ہے،  تو اب اگر وہ میکہ جاتی ہے تو کیا اس کو طلاق مغلظہ؟ بائن یا رجعی کون سی طلاق پڑے  گی؟ کیا حکم ہوگا؟ حلالہ یا  تجدید نکاح میں سے کون سا حکم لگے گا؟ 

وہ مرد ایسا ہے کہ اس کو علم نہیں  کہ کتنی طلاقیں دینی ہیں؟ بس جس وقت اس نے کہا کہ اگر تم لاہور میکے  گئی تو تمہیں وہیں تین لفظ ہوں گے“ اس سے اس کی نیت طلاق کی ہی تھی،  ایک یا دو یا تین کی نیت نہیں تھی،  بس طلاق،  فرقت اورتعلق ختم کرنے کی نیت تھی۔ 

کیا اب ساری زندگی وہ میکے نہیں جا سکتی؟ کیوں کہ اس کے شوہر نے شرط لگائی ہے کہ اگر میکے گئی تو تمہیں وہیں تین لفظ ہوں گے،  اگر چلی گئی تو کیا طلاق واقع ہو جائے گی؟ کتنی طلاقیں واقع ہوں گی؟ کون سی طلاق واقع ہوگی؟

جواب

واضح رہے کہ طلاق واقع کرنے کے لیے  ضروری ہے کہ ایسے الفاظ کا استعمال کیا جائے جو طلاق کے مفہوم پر دلالت کرتے ہوں،  خواہ  وہ  الفاظ  طلاق کے  لیے صریح  ہوں   یا  کنایہ ،  اگر کوئی شخص   طلاق کا (صریح یا کنایہ) کوئی لفظ استعمال   نہیں کرتا تو کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی، لہٰذا صورتِ  مسئولہ میں شوہر کے اس جملہ  ”اگر تم اپنے میکے گئی تو تمہیں وہی تین لفظ ہوں گے“سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی، اگر چہ اس کی نیت  طلاق کی تھی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وركنه لفظ مخصوص".

وفی الرد:

"(قوله وركنه لفظ مخصوص) هو ما جعل دلالة على معنى الطلاق من صريح أو كناية فخرج الفسوخ على ما مر، وأراد اللفظ ولو حكما ليدخل الكتابة المستبينة وإشارة الأخرس والإشارة إلى العدد بالأصابع في قوله أنت طالق هكذا كما سيأتي.وبه ظهر أن من تشاجر مع زوجته فأعطاها ثلاثة أحجار ينوي الطلاق ولم يذكر لفظا لا صريحا ولا كناية لا يقع عليه كما أفتى به الخير الرملي وغيره".

(كتاب الطلاق، ج:3، ص:230، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144605102242

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں