بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 جُمادى الأولى 1446ھ 02 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

اگر تو گاؤں گئی تو تجھے تین ہے کہنے کا حکم


سوال

 ایک شخص نے اپنی بیوی سے کہا اگر توصبح تک گاوں نہیں گئی تو تجھے تین ہے ، یعنی طلاق کے الفاظ زبان سے ادا نہیں کیے لیکن دماغ میں طلاق مراد تھی؟

جواب

طلاق واقع کرنے کے لیے لفظِ طلاق کا تلفظ ضروری ہے، خواہ وہ لفظ طلاق کے لیے صریح ہو یا کنایہ ، لفظ ’’تین‘‘ طلاق کا عدد تو بن سکتا ہے لیکن طلاق کا لفظ نہیں بن سکتا، نہ صریح اور نہ کنایہ، اگر کوئی شخص زبان سے طلاق کا (صریح یا کنایہ) کوئی لفظ نہیں کہتا تو صرف تین کہنے سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی، لہٰذا مسئولہ میں شوہر کے اس جملہ ’’اگر تو صبح تک گاؤں نہیں گئی تو تجھے تین ہے‘‘ سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله وركنه لفظ مخصوص) هو ما جعل دلالة على معنى الطلاق من صريح أو كناية فخرج الفسوخ على ما مر، وأراد اللفظ ولو حكما ليدخل الكتابة المستبينة وإشارة الأخرس والإشارة إلى العدد بالأصابع في قوله أنت طالق هكذا كما سيأتي.

وبه ظهر أن من تشاجر مع زوجته فأعطاها ثلاثة أحجار ينوي الطلاق ولم يذكر لفظا لا صريحا ولا كناية لا يقع عليه كما أفتى به الخير الرملي وغيره، وكذا ما يفعله بعض سكان البوادي."

(كتاب الطلاق،ركن الطلاق، ج:3، ص:230، ط: سعيد)

بدائع الصنائع میں ہے:

وأما ركنه فهو اللفظ الدال على منع النفس عن الجماع في الفرج مؤكدا باليمين بالله تعالى أو بصفاته أو باليمين بالشرط والجزاء

(كتاب الطلاق، ج:3، ص:161، دار الكتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144310101032

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں