بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اگر تو ملتان گئی تو تجھے طلاق


سوال

ایک شخص کی شادی ملتان میں  ہوئی ،اس کے سسرال میں والد اور چچا کی کچھ انتہائی غیر اخلاقی و نازیبا حرکتوں اور گھمبیر مسائل کی وجہ سے وہ اپنی بیوی سے کہتا ہے کہ ’’اگر تو آج کے بعد ملتان گئی تو تجھے میری طرف سے طلاق ہے۔‘‘ اب سوال یہ ہے کہ اگر کسی علاج وغیرہ کی غرض سےاس کی بیوی ملتان کے کسی ہسپتال جاتی ہے،یا پھر کسی اور غرض سے ملتا ن میں اپنے میکے کے علاؤہ کسی اور کے گھر جاتی ہے تو اس پر طلاق کا حکم لاگو ہوگا یا نہیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ شخص کی بیوی ملتان جاتی ہے،  چاہے کسی بھی غرض سے ہو تو   مذکورہ جملہ(اگر تو  آج کے بعد ملتان گئی تو تجھے میری طرف سے طلاق ہے)  کی وجہ سے ایک طلاق رجعی واقع ہو جائے گی ،اور مذکورہ شخص کو عدت میں رجوع کا حق ہوگا ،رجوع کر لینے بعد دو طلاقوں کا اختیار ہوگا ،اور طلاق کی تعلیق بھی ختم ہوجائے گی یعنی اگر دوبارہ مذکورہ شخص کی بیوی کسی بھی عرض سے ملتان جاتی ہے چاہے اپنے میکے ہی کیوں نہ ہو  طلاق واقع نہیں ہو گی ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"‌الأيمان ‌مبنية ‌على الألفاظ لا على الأغراض (قوله الأيمان مبنية على الألفاظ إلخ) أي الألفاظ العرفية بقرينة ما قبله واحترز به عن القول ببنائها على عرف اللغة أو عرف القرآن ففي حلفه لا يركب دابة ولا يجلس على وتد، لا يحنث بركوبه إنسانا وجلوسه على جبل وإن كان الأول في عرف اللغة دابة، والثاني في القرآن وتدا كما سيأتي وقوله: لا على الأغراض أي المقاصد والنيات، احترز به عن القول ببنائها على النية. فصار الحاصل أن المعتبر إنما هو اللفظ العرفي المسمى، وأما غرض الحالف فإن كان مدلول اللفظ المسمى اعتبر وإن كان زائدا على اللفظ فلا يعتبر، ولهذا قال في تلخيص الجامع الكبير وبالعرف يخص ولا يزاد حتى خص الرأس بما يكبس ولم يرد الملك في تعليق طلاق الأجنبية بالدخول اهـ ومعناه أن اللفظ إذا كان عاما يجوزتخصيصه بالعرف كما لو حلف لا يأكل رأسا فإنه في العرف اسم لما يكبس في التنور ويباع في الأسواق، وهو رأس الغنم دون رأس العصفور ونحوه، فالغرض العرفي يخصص عمومه، فإذا أطلق ينصرف إلى المتعارف، بخلاف الخارجة عن اللفظ كما لو قال لأجنبية إن دخلت الدار فأنت طالق، فإنه يلغو ولا تصح إرادة الملك أي إن دخلت وأنت في نكاحي وإن كان هو المتعارف لأن ذلك غير مذكور، ودلالة العرف لا تأثير لها في جعل غير الملفوظ ملفوظا."

(فتاوی شامی ،کتاب الایمان ،ج:3،ص:743،ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض كذا في الهداية."

(کتاب الطلاق ،الباب السادس فی الرجعۃ ج1ص470ط:رشیدیہ)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق."

(الفصل الثالث في تعليق الطلاق بكلمة إن وإذا وغيرهما : ج:1،ص:420، ط : دار الفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وتنحل) اليمين (بعد) وجود (الشرط مطلقا)."

کتاب الطلاق ،باب التعلیق ،ج:3،ص:355۔ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502101678

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں