بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اگر طلاق ثلاثہ کے بعد خاوند بیوی کو رکھے تو کیا بیوی کو حق ہے کہ وہ شوہر کو ماردے؟


سوال

اگر طلاق ثلاثہ کے بعد خاوند بیوی کو رکھے تو کیا بیوی کو حق ہے کہ وہ شوہر کو ماردے؟  برائے مہربانی ہندیہ کا حوالہ بھی دے دیں۔

جواب

اگر شوہر تین طلاقیں دینے کے بعد بھی اپنی بیوی کو نہ چھوڑے تو اس صورت میں عورت کے لیے  فقہائے کرام نے یہ حکم لکھا ہے کہ  وہ مرد کو ہم بستری کے لیے اپنے اوپر ہرگز قدرت نہ دے، اور اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے، اس کی سب سے بہتر صورت تو یہ ہے کہ خاندان یا محلہ کے ذمہ دار با اثر افراد شوہر کو سمجھا بجھا کر طلاق پر آمادہ کریں،  اس کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ عورت مرد کو  کچھ مال دے کر اپنی جان چھڑالے۔

اگر وہ اس پر بھی راضی نہ ہو تو عورت  اس کے گھر سے بھاگ کر اپنے والدین یا کسی محرم رشتہ دار کے ہاں پناہ لے لے۔

اگر عورت ان میں سے کسی پر بھی قادر نہ ہو اور مرد اس سے زبردستی ہمبستری کرنے کی کوشش کرے تو ایسی صورت میں اگر چہ بعض فقہائے کرام رحمہم اللہ نے  یہاں تک لکھا ہے کہ گناہِ کبیرہ سے بچنے کی خاطرعورت مرد کو زہر دے کر  قتل کر سکتی ہے، لیکن اس قول پر فتوی نہیں ہے، بلکہ اس پر عمل  کی وجہ سے شر پھیلنے کا بھی اندیشہ ہے کہ بد طینت عورتیں اس فتوے کا غلط فائدہ اٹھا کر اپنے خاوند کو بلا وجہ قتل کرنے کا بہانہ بنا سکتی  ہیں،  نیز  مروجہ  قانون میں بھی اس کی اجازت نہ  ہونے کی وجہ  سے قتل کی صورت میں عورت کا سزا میں خود قتل کیے  جانے کا قوی اندیشہ ہے،    اسی لیے  دیگر  فقہائے کرام رحمہم اللہ نے قتل کی اجازت نہیں  دی ( اور اسی قول پر فتوی بھی ہے)،  بلکہ   یہ لکھا ہے کہ ایسی صورت میں سارا گناہ مرد کو ہو گا، بشرطیکہ عورت  ہمبستری پر راضی نہ ہو، ورنہ وہ بھی گناہ گار ہو گی۔

آپ کی فرمائش پر ہندیہ کا حوالہ بھی درج ہے، لیکن اس میں  زیرِ نظر مسئلہ کی مکمل تفصیل  نہیں ہے، بقیہ حوالہ جات میں یہ واضح طور پر موجود ہے ، ملاحظہ فرما لیں۔

"الفتاوي الهندية" میں ہے:

"وسئل شيخ الإسلام أبو القاسم - رحمه الله تعالى - عن امرأة سمعت من زوجها أنه طلقها ثلاثا ولا تقدر أن تمنع نفسها منه هل يسعها أن تقتله قال لها أن تقتله في الوقت الذي يريد أن يقربها ولا تقدر على منعه إلا بالقتل وهكذا كان فتوى شيخ الإسلام أبي الحسن عطاء بن حمزة والإمام أبي شجاع وكان القاضي الإمام الإسبيجابي يقول: ليس لها أن تقتله كذا في المحيط وفي الملتقط وعليه الفتوى قال الشيخ الإمام نجم الدين: يحكى به جواب السيد الإمام أبي شجاع يقول لها أن تقتله فقال: إنه رجل كبير وله مشايخ أكابر لايقول ما يقول إلا عن صحة فالاعتماد على قوله، كذا في التتارخانية.

وإذا شهد عند المرأة شاهدان عدلان أن زوجها طلقها ثلاثا وهو يجحد ذلك ثم ماتا أو غابا قبل أن يشهدا عند القاضي لم يسعها أن تقوم معه وأن تدعه يقربها فإن حلف الزوج على ذلك والشهود قد ماتوا فردها القاضي عليه لا يسعها المقام معه وينبغي لها أن تفتدي بمالها أو تهرب منه فإن لم تقدر على ذلك قتلته متى علمت أنه يقربها لكن ينبغي أن تقتله بالدواء وليس لها أن تقتل نفسها وإذا هربت منه لم يسعها أن تعتد وتتزوج بزوج آخر قال الشيخ شمس الأئمة الحلواني في شرح كتاب الاستحسان هذا جواب الحكم فأما فيما بينها وبين الله - تعالى - إذا هربت فلها أن تعتد وتتزوج بزوج آخر كذا في المحيط."

(كتاب الطلاق، الباب السادس في الرجعة وفيما تحل به المطلقة وما يتصل به، ج:1، ص:475-476، ط:دار الفکر)

"الدر المختار مع رد المحتار "میں ہے:

"(سمعت من زوجها أنه طلقها ولا تقدر على منعه من نفسها) إلا بقتله (لها قتله) بدواء خوف القصاص، ولا تقتل نفسها. وقال الأوزجندي: ترفع الأمر للقاضي، فإن حلف ولا بينة فالإثم عليه، وإن قتلته فلا شيء عليها. والبائن كالثلاث، وفيها شهدا أنه طلقها ثلاثا لها التزوج بآخر للتحليل لو غائبا انتهى. قلت: يعني ديانة. والصحيح عدم الجواز قنية، وفيها: لو لم يقدر هو أن يتخلص عنها ولو غاب سحرته وردته إليها لا يحل له قتلها، ويبعد عنها جهده (وقيل: لا) تقتله، قائله الإسبيجابي (وبه يفتى) كما في التتارخانية وشرح الوهبانية عن الملتقط أي، والإثم عليه كما مر.

(قوله: أنه طلقها) أي ثلاثا لأن ما دونها يمكن فيه تجديد العقد إلا إذا كان ينكر.

قوله: لها قتله بدواء) قال في المحيط: وينبغي لها أن تفتدي بما لها، أو تهرب منه، وإن لم تقدر قتلته متى علمت أنه يقربها، ولكن ينبغي أن تقتله بالدواء وليس لها أن تقتل نفسها، وإن قتلته بالآلة يجب القصاص. اهـ. بحر (قوله: فالإثم عليه) أي وحده، وينبغي تقييده بما إذا لم تقدر على الافتداء، أو الهرب (قوله: وإن قتلته إلخ) أفاد إباحة الأمرين ط (قوله: لو غائبا) تمام عبارة البزازية وإن كان حاضرا لا لأن الزوج إن أنكر احتيج بالفرقة، ولا يجوز القضاء بها إلا بحضرة الزوج. اهـ. (قوله: والصحيح عدم الجواز) قال في القنية: وقال يعني البديع، والحاصل أنه على جواب شمس الأوزجندي ونجم الدين النسفي والسيد أبي شجاع وأبي حامد والسرخسي يحل لها أن تتزوج بزوج آخر فيما بينها وبين الله تعالى، وعلى جواب الباقين لا يحل، وفي الفتاوى السراجية: إذا أخبرها ثقة أن الزوج طلقها وهو غائب وسعها أن تعتد وتتزوج ولم يقيده بالديانة اهـ كذا في شرح الوهبانية..."

(كتاب الطلاق، باب الرجعة، ج:3، ص:420-421، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407101407

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں