سوال برائے حق مہر سوال/وضاحت بحوالہ فتوی نمبر 144211200637
چوں کہ مکان اس عورت کے قبضے میں نہیں دیا گیا اور وہ اس کی مالکہ نہیں ہے تو اب یہ عورت مہر میں لکھے گئے پانچ مرلہ مکان کا مطالبہ کس سے کرے؟ سسر سے یا خاوند سے؟ اور کیا خاوند یا سسر یہ پانچ مرلے مکان بمعہ صحن و راستہ دینے کے پابند ہوں گے یا نہیں؟ شاید "کفایت المفتی" میں کچھ اس طرح کی بات ہے کہ سسر اگر مہر کا ضامن بنے تو وہ یہ مہر بہو کو دینے کا پابند ہوگا، ورنہ خاوند کو ادا کرنا لازم ہوگا!
بصورتِ مسئولہ جب کہ سسر نے نکاح کے موقع پر عورت کے حق مہر کے طور پر پانچ مرلہ پر مشتمل ایک مکان اور مبلغ دس ہزار روپیہ لکھ کر دیا ہے تو ایسی صورت میں عورت اپنے سسر اور خاوند دونوں سے اپنے مہر کے مطالبہ کا حق رکھتی ہے، فتاوی شامی میں بھی یہ بات درج ہے اور کفایت المفتی میں بھی اس کی صراحت موجود ہے۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 140):
"(وصح ضمان الولي مهرها ولو) المرأة (صغيرة) ولو عاقدًا؛ لأنه سفير، لكن بشرط صحته؛ فلو في مرض موته وهو وارثه لم يصح، وإلا صحّ من الثلث، وقبول المرأة أو غيرها في مجلس الضمان (وتطلب أيًّا شاءت) من زوجها البالغ، أو الولي الضامن (فإن أدّى رجع على الزوج إن أمر) كما هو حكم الكفالة
کفایت المفتی میں ہے:
"اگر والد نے مہر کی ضمانت کی ہو تو والد پر ادائیگی لازم ہے، ورنہ بیٹے پر ادا کرنا لازم ہوگا۔"
(کفایت المفتی 5/ 122 ط: دار الاشاعت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144211200809
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن