بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اگر سیڑھیاں اترنے چڑھنے سے گھٹنوں میں درد ہوتا ہو تو مغرب و عشاء گھر میں ہی پڑھنا کیسا ہے؟


سوال

اگر گھر پانچویں منزل پر ہو اور بار بار سیڑھیاں چڑھنے سے گھٹنوں میں درد ہو جائے تو کیا مغرب اور عشاء گھر میں ہی ادا کی جاسکتی ہے ؟جب کہ نماز کے وقفے کے دوران غلط صحبت بھی اختیار کی جارہی ہو جس کے نتیجے میں گھر میں ناچاقی رہتی ہوکہ شوہر صبح سے لے کر عشاء تک کا وقت باہر گزارتے ہیں ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر گھٹنوں کا درد ناقابلِ برداشت ہے یا بار بار سیڑھیاں اترنے چڑھنے سے گھٹنوں کا در د بڑھنے کا خدشہ ہے تو اس صورت میں گھر میں نماز پڑھنے کی گنجائش ہے ،البتہ بہتر یہ ہے کہ گھر میں بھی باجماعت نماز ادا کرے ،جہاں تک بات غلط صحبت میں بیٹھنے کی اور گھر میں ناچاقی کی ہے تو یہ ترک جماعت کا عذر نہیں ہے،اس کا حل یہی ہے کہ  سائل اپنے گھر والوں کو وقت دے اور غلط صحبت میں بیٹھنے سے گریز کرے ۔

فتاوی عالمگیریہ میں  ہے:

"وتسقط الجماعة بالأعذار حتى لا تجب على المريض والمقعد والزمن ومقطوع اليد والرجل من خلاف ومقطوع الرجل والمفلوج الذي لا يستطيع المشي والشيخ الكبير العاجز والأعمى عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - والصحيح أنها تسقط بالمطر والطين والبرد الشديد والظلمة الشديدة. كذا في التبيين وتسقط بالريح في الليلة المظلمة وأما بالنهار فليست الريح عذرا وكذا إذا كان يدافع الأخبثين أو أحدهما أو كان إذا خرج يخاف أن يحبسه غريمه في الدين أو يريد سفرا وأقيمت الصلاة فيخشى أن تفوته القافلة أو كان قيما لمريض أو يخاف ‌ضياع ‌ماله وكذا إذا حضر العشاء وأقيمت صلاته ونفسه تتوق إليه، وكذا إذا حضر الطعام في غير وقت العشاء ونفسه تتوق إليه. كذا في السراج الوهاج."

(کتاب الصلاۃ ،فصل فی الجماعۃ،ج:1،ص:83،ط:رشیدیہ)

فتاوی شامی میں ہے:

"(فلا تجب على مريض ومقعد وزمن ومقطوع يد ورجل من خلاف)"

(کتاب الصلاۃ ،باب الامامۃ،ج:1،ص:555،ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"(قوله: وتكرار الجماعة) لما روى عبد الرحمن بن أبي بكر عن أبيه أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - خرج من بيته ليصلح بين الأنصار فرجع وقد صلى في المسجد بجماعة، فدخل رسول الله - صلى الله عليه وسلم - في منزل بعض أهله ‌فجمع ‌أهله فصلى بهم جماعة"

(کتاب الصلاۃ ،ج:1،ص:395،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504101507

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں