بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اگر شوہر نامحرموں سے تعلق رکھتا ہو تو عورت کیا تدبیر اختیار کرے ؟


سوال

میری شادی کو 16 سال ہو چکے ہیں، میرے بالترتیب 15، 12 اور 2 سال  کے تین بچے ہیں،  یہ چوتھی بار ہے جب میرے شوہر کو دوسری عورتوں اور مردوں سے (آڈیو کالز پر) نامناسب باتیں کرتے ہوئے پکڑا گیا ہے، میں نے اسے آخری تین بار معاف کیا،  ہر بار اس نے معافی مانگی، روئے اور وعدہ کیا کہ وہ ایسا نہیں کریں گے، لیکن اس بار میرے لیے برداشت کرنا بہت زیادہ ہے، میرا بیٹا اور بیٹی نوعمر ہیں، اور میں خوفزدہ ہوں،  وہ اپنے بچوں کے لیے ایک عظیم باپ ہے، ان کی داڑھی ہے، نماز پڑھتے ہے، پڑھے لکھے ہے۔ اگر میں اس کا سامنا کراوں تو کوئی بھی یقین نہیں کرے گا، میں نے اسکرین شاٹس لیے اور اپنے فون پر بھیجے لیکن وہ میرے محفوظ کرنے سے پہلے ہی ڈیلیٹ کرنے میں کامیاب ہوگئے،  وہ معذرت خواہ ہیں اور قرآن کی قسم کھا رہے ہے، لیکن میرے دل کو سکون نہیں ہے، مجھے والدین کی طرف سے کوئی تعاون نہیں ہے لہذا چھوڑنا ایک مشکل آپشن ہے، اس بارے میں اسلامی احکام ہم دونوں کے لیے کیا مشورہ دیتے ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ  نامحرم  عورت سے  تعلقات، ملنا جلنا،  ہنسی مذاق کرنا    بلکہ بلاضرورت اس کو دیکھنا  اور بات کرنا بھی جائز نہیں ہے، جب کہ  شریعت میں بیوی کے بہت سے حقوق ہیں ،   جس کی ادائیگی  شوہر کی ذمہ داری ہے، جن کی حق تلفی پر قیامت میں اللہ کے سامنے جواب دینا ہوگا، ایک حدیث مبارک میں ہے   کہ  رسول کریم ﷺ نے فرمایا: ”مؤمنین میں سے  کامل ترین ایمان اس شخص کا ہے جو ان میں سے بہت زیادہ خوش اخلاق ہو،  اور تم  میں بہتر وہ شخص ہے جو  اپنی عورتوں کے حق میں بہتر ہے“،  اسی طرح ایک اور حدیث مبارک میں ہے  کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: ”تم میں بہترین شخص وہ ہے جو اپنے اہل (بیوی، بچوں، اقرباء اور خدمت گزاروں) کے حق میں بہترین ہو، اور میں اپنے اہل کے حق میں تم میں  بہترین ہوں“۔ لہذا شوہر پر لازم ہے کہ وہ اپنے اس رویہ اور سلوک سے اجتناب کرے، اور بیوی کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے، اور نامحرم عورت سے تعلقات ختم کرکے توبہ واستغفار کرے۔

نیز بیوی کو بھی چاہیے کہ وہ حکمت وبصیرت کے ساتھ شوہر کو سمجھائے، اس کے حقوق کا خیال رکھے، اس کی خدمت کرتی رہے، اور اس کے لیے بنے سنورے،  ہر جائز امور میں شوہر کی اطاعت وفرمانبرداری کرے، اور اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعائیں بھی کرتی رہے۔ الغرض جس حد تک ہوسکے نباہ کی پوری کوشش کرتی رہے۔

تاہم جب کہ صورتِ مسئولہ میں شوہر اپنے کیے پر نادم اور شرمسار  ہے اور معافی بھی مانگ  رہا ہے ،توبیوی کو چاہیے کہ اسے معاف کردے ، اور اس کی بات پر اعتماد کرے، کیوں کہ دلوں کا حال صرف اللہ رب العزت کی ذات  جانتا ہے، ہم صرف ظاہر کے مکلف ہے، لہذا شکوک وشبہات سے اجتناب کرنا چاہیے، تاکہ نکاح کا معزز رشتہ برقرار رہے اور طلاق کی نوبت نہ آئے،اس لیےکہ حدیث شریف میں ہے کہ حلال کاموں میں اللہ رب العزت کے نزدیک سب سے زیادہ مبغوض چیز طلاق ہے۔

قرآن مجید میں ہے:

"قُلْ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْ  ذٰلِك اَزْكى لَهُمْ اِنَّ اﷲَ خَبِيْرٌ  بِمَا يَصْنَعُوْنَ."[النور : 30]

ترجمہ : "آپ مؤمن مردوں سے فرما دیں کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں، یہ ان کے لیے بڑی پاکیزہ بات ہے، بے شک اللہ ان کاموں سے خوب آگاہ ہے جو یہ انجام دے رہے ہیں۔"

  حدیث مبارک میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أكمل المؤمنين إيماناً أحسنهم خلقاً، وخياركم خياركم لنسائهم» . رواه الترمذي."

(مشکاۃ المصابیح، 2/282،  باب عشرۃ النساء، ط؛ قدیمی)

ایک اور حدیث مبارک میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «خيركم خيركم لأهله وأنا خيركم لأهلي."

(مشکاۃ المصابیح، 2/281،  باب عشرۃ النساء، ط: قدیمی)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(إلا من أجنبية) فلايحلّ مسّ وجهها وكفها و إن أمن الشهوة؛ لأنه أغلظ ... و في الأشباه: الخلوة بالأجنبية حرام."

(کتاب الحظر والإباحة، فصل في النظر والمس،ج:6، ص:367، ط:سعيد)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144507101150

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں