اگر شوہر بغیر کسی عذر کبھی ایک مہینہ بعد اور کبھی دو مہینے بعد ازدواجی تعلق قائم کرے تو اس صورت میں ان کے رشتہ پر کیا اثر پڑے گا؟ نیز بیوی چاہتی ہو کہ شوہر حقوقِ زوجیت ادا کرے، لیکن شوہر پھر بھی دو دو مہینے تک ازدواجی تعلقات قائم نہ کرےتو ایسی صورت میں کیا حکم ہے اور بیوی کو کیا کرنا چاہیے؟
واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ نے شوہروں کو اپنی بیویوں کے ساتھ حُسنِ سلوک و حُسنِ معاشرت کا پابند کیا ہے، جس میں اس کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا، اس کا حق بغیر ٹال مٹول کے ادا کرنا اور اس کی جنسی خواہش کی تسکین فراہم کرنا سب داخل ہے ، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ :" تم میں بہترین شخص وہ ہے جو اپنے اہل (بیوی، بچوں، اقرباء اور خدمت گزاروں) کے حق میں بہترین ہو، اور میں اپنے اہل کے حق میں تم میں بہترین ہوں"
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
" وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا " (النساء: 19)
"ترجمہ: اور ان عورتوں کے ساتھ خوبی کے ساتھ گزران کرو، اور اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو ممکن ہے کہ تم ایک شے کو ناپسند کرو اور اللہ تعالیٰ اس کے اندر کوئی بڑی منفعت رکھ دے۔"(ازبیان القرآن)
حدیثِ مبارک میں ہے:
"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أكمل المؤمنين إيماناً أحسنهم خلقاً، وخياركم خياركم لنسائهم . رواه الترمذي."
(مشکاة المصابیح، باب عشرة النساء، ج:2، ص:282، ط:قدیمي)
ترجمہ:"رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا: مؤمنین میں سے کامل ترین ایمان اس شخص کا ہے جو ان میں سے بہت زیادہ خوش اخلاق ہو، اور تم میں بہتر وہ شخص ہے جو اپنی عورتوں کے حق میں بہتر ہے"۔
(مظاہر حق،ج:3، ص:370، ط: دارالاشاعت)
ایک اور حدیثِ مبارک میں ہے:
"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: خيركم خيركم لأهله وأنا خيركم لأهلي."
(مشکاة المصابیح، باب عشرة النساء، ج:2، ص:281، ط:قدیمي)
ترجمہ:"رسولِ کریم ﷺ نے فر مایا: تم میں بہترین شخص وہ ہے جو اپنے اہل (بیوی، بچوں، اقرباء اور خدمت گزاروں) کے حق میں بہترین ہو، اور میں اپنے اہل کے حق میں تم میں بہترین ہوں"۔
یہی وجہ ہے کہ فقہاء کرام نے صراحت کی ہے کہ شوہر کی جانب سے جنسی تسکین کے مطالبہ کو پورا کرنا بیوی پر لازم ہے ،بشرط یہ کہ کوئی شرعی مانع نہ ہو ،اسی طرح نکاح کے بعد ایک مرتبہ حق زوجیت پورا کرنا قضاء واجب ہے ،پورا نہ کرنے کی صورت میں بیوی کو حق حاصل ہے کہ وہ عدالت میں کیس کرکے شرعی طریقے سے جدائی حاصل کرے ،ایک مرتبہ حق زوجیت پورا کرنے کے بعد بیوی کی جانب سے جنسی تسکین کے مطالبہ یا خواہش پر اسے پورا کرنا شوہر پر دیانۃً واجب ہے، پس اگر شوہر عورت کے اِس مطالبہ کو پورا نہ کرے یا باوجود قدرت کے تاخیر کرے تو دیانۃً حق تلفی کے گناہ کا مرتکب ہوگا،ایسی صورت میں بیوی کو چاہیے کہ وہ خاندان کےبااختیار و سمجھ دار افراد اور بزرگوں کے ذریعہ ، حکمت و بصیرت کے ساتھ اس معاملہ کو حل کرنے کی کوشش کرے اور شوہر کو چاہیے کہ اس معاملہ میں اپنی بیوی کا ساتھ دے اور بات بڑھانے کی بجائے، اس معاملہ کو سلجھانے کی کوشش کرے، تاکہ آگے جاکر اس کی بنا پر مزید لڑائی اور جھگڑے پیدا نہ ہوں،نیز یہ بات بھی ملحوظ نظر رہنی چاہیے کہ آدمی پر واجب ہے کہ چار ماہ تک جماع ترک نہ کرے، الا یہ کہ بیوی کی رضامندی سےہو پھر کوئی بات نہیں ۔
فتاوی شامی میں ہے:
"واعلم أن ترك جماعها مطلقا لا يحل له، صرح أصحابنا بأن جماعها أحيانا واجب ديانة، لكن لا يدخل تحت القضاء والإلزام إلا الوطأة الأولى ولم يقدروا فيه مدة،ويجب أن لا يبلغ به مدة الإيلاء إلا برضاها وطيب نفسها به"
(کتاب النکاح، باب القسم بین الزوجات، ج:3، ص:202، ط:دارالفکر)
الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:
"المعاشرة بالمعروف من كف الأذى وإيفاء الحقوق وحسن المعاملة: وهو أمر مندوب إليه، لقوله تعالى: "وعاشروهن بالمعروف "ولقوله صلّى الله عليه وسلم: "خيركم خيركم لأهله، وأنا خيركم لأهلي" وقوله:"استوصوا بالنساء خيراً"والمرأة أيضاً مندوبة إلى المعاشرة الجميلة مع زوجها بالإحسان، واللطف في الكلام، والقول المعروف الذي يطيب به نفس الزوج.ومن العشرة بالمعروف: بذل الحق من غير مطل، لقوله صلّى الله عليه وسلم: "مَطْل الغني ظلم".ومن العشرة الطيبة: ألا يجمع بين امرأتين في مسكن إلا برضاهما؛ لأنه ليس من العشرة بالمعروف، ولأنه يؤدي إلى الخصومة. ومنها ألا يطأ إحداهما بحضرة الأخرى؛ لأنه دناءة وسوء عشرة. ومنها ألا يستمتع بها إلا بالمعروف، فإن كانت نِضْو الخلق (هزيلة) ولم تحتمل الوطء، لم يجز وطؤها لما فيه من الإضرار.
حكم الإستمتاع أو هل الوطء واجب؟ قال الحنفية: للزوجة أن تطالب زوجها بالوطء؛ لأن حله لها حقها، كما أن حلها له حقه، وإذا طالبته يجب على الزوج."
(الباب الأول: الزواج وآثاره، ج:9، ص:6598/6599، ط:دار الفكر۔بيروت)
بدائع الصنائع میں ہے:
"وللزوجة أن تطالب زوجها بالوطء؛ لأن حله لها حقها كما أن حلها له حقه، وإذا طالبته يجب على الزوج، ويجبر عليه في الحكم مرة واحدة والزيادة على ذلك تجب فيما بينه، وبين الله تعالى من باب حسن المعاشرة واستدامة النكاح، فلا يجب عليه في الحكم عند بعض أصحابنا، وعند بعضهم يجب عليه في الحكم."
( كتاب النكاح، فصل بيان حكم النكاح، ج:2، ص:331، ط:دار الكتب العلمية۔بيروت)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(قوله: لحصول حقها بالوطء مرة) وما زاد عليها فهو مستحق ديانة لا قضاء بحر عن جامع قاضي خان، ويأثم إذا ترك الديانة متعنتا مع القدرة على الوطء ط."
(كتاب النكاح، باب العنين، ج:3، ص:495، ط:سعيد)
وفيه أيضاً:
"قال الحصکفی: و لایبلغ الإیلاء إلا برضاها.
قال ابن عابدین : (قوله: و لایبلغ مدة الإیلاء) تقدم عن الفتح التعبیر بقوله ویجب أن لا یبلغ إلخ. وظاهرہ أنه منقول، لکن ذکر قبله فی مقدار الدور أنه لاینبغی أن یطلق له مقدار مدة الإیلاء و هو أربعة أشهر، فهذا بحث منه کما سیذکرہ الشارح فالظاهر أن ما هنا مبنی علی ہذا البحث تأمل، ثم قوله: و هو أربعة یفید أن المراد إیلاء الحرة، و یويّد ذلک أن عمر - رضی اللہ تعالی عنه - لما سمع في اللیل امرأة تقول:
فواللہ لو لا اللہ تخشی عواقبه
لزحزح من هذا السریر جوانبه
فسأل عنها فإذا زوجها فی الجهاد، فسأل بنته حفصة: کم تصبر المرأة عن الرجل: فقالت أربعة أشهر، فأمر أمراء الأجناد أن لایتخلف المتزوج عن أہله أکثر منها، و لو لم یکن فی ہذہ المدة زیادة مضارة بها لما شرع اللہ تعالی الفراق بالإیلاء فیها."
(کتاب النکاح، باب القسم بین الزوجات، ج:3، ص: 203، ط: سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144505101700
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن