بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اگر راستہ میں مسجد بنانے سے لوگوں کو تکلیف پہنچتی ہو تو اس کا بنانا درست نہیں


سوال

روڈ  کے اطراف میں 200 فٹ سرکاری ہوتا ہے ،ہمارے ہاں کوئٹہ میں سریاب روڈ  جو بڑا شارع روڈ ہے،بیس سال پہلے دکانداروں نے  روڈ  کے ایک طرف ایک مسجد بنائی  ،دکاندار لوگ اور مسافر لوگ وہاں نماز پڑھتے تھے ،کبھی کبھی نماز باجماعت ادا ہوتی تھی  ،اب حکومت روڈوں کو طویل کررہی ہے، اور حکومت نے مسجد کوبھی شہید کردیا، اور چند قدم کے فاصلے پر کالونی میں متبادل مسجد بھی تعمیر کی ہے ،لیکن  ایک نامور عالم دین نے روڈ  کے درمیان میں اسی مسجد کو دوبارہ تعمیر کردیا،  جس کی وجہ سے   لوگوں کو گزرنے  میں مشکلات  کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ،اور عوام الناس اس بات پر مصر ہے ،کہ اس مسجد میں  تو کبھی کبھی لوگ نماز پڑھتے تھے، لہذا اس مسجد کوشہید کیا جائے، اور عالم دین کو بھی برا بھلا اور گالیاں کستے ہیں، کہ مولوی صاحب غلط کررہے  ہیں  ،لہذا اس مسئلہ  کی  وضاحت کے ساتھ راہ نمائی فرمائیں ۔

جواب

اولا یہ واضح رہے کہ  جو مسجدراستہ میں بنائی گئی ہو   ،اور اس کی ساری جگہ  راستہ میں سے لی گئی ہو، اس کا حکم مسجد کا نہیں ہوتا،بلکہ وہ عام مصلی(جائے نماز ) کے حکم میں ہوتی ہے ،کیوں کہ اگر اس کی درودیوار کو ہٹا دیا جائے گا،تو وہ دوبارہ سے راستہ ہی کہلائے گا۔

ثانیا یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ اگر راستہ میں مسجد  بنائی جارہی ہے ،تو اس کے لیے شرط یہ ہے کہ حکومت کی طرف سے اجازت ہو، اور  راستہ اتنا وسیع ہو کہ گزرنے والوں کو اس  مسجد  کی وجہ سے گزرنے میں تکلیف نہ پہنچے ،اگر گزرنے والوں کو اس مصلی کی وجہ سے تکلیف پہنچتی ہے ،تو اس کا بنانا جائز نہیں ۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں جب حکومت نے چند قدم کے فاصلے پر دوسری متبادل مسجد بنا کر دے دی ہے ،اور راستہ میں بنائی گئی مسجد سے لوگوں کو گزرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ،تو راستہ میں  اس مسجد کو بنانا درست نہیں ،اُن عالم کو چاہیے کہ جو شرائط  راستہ پر مسجد بنانے سے متعلق شریعت نے بیان کیے ہیں وہ یہاں نہیں پائی جارہی ،لہذا اس مسجد کی تعمیر  ہٹا دیں ،تاکہ لوگوں کو ضرر نہ ہو۔

نیز یہ بھی  واضح رہے کہ کسی مسلمان خاص کر کسی عالم دین کو بربھلا کہنا ،اس پر سب و شتم کرنا کسی حالت میں جائز نہیں ،لہذا عوام کے لیے اس بات کی ہر گز گنجائش نہیں کہ وہ اس عالم دین کو اس کے اس فعل کی وجہ سے برا بھلا کہیں  ،بلکہ ان کو چاہیے کہ ان کو دوسرے علماء کے ذریعے بات سمجھانے کی کوشش کریں  ،اور ان کے حق میں  دعا کرتے رہیں ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"قال في جامع الفصولين: المسجد الذي يتخذ من جانب الطريق لا يكون له حكم المسجد بل هو طريق بدليل أنه لو رفع حوائطه عاد طريقا كما كان قبله."

(كتاب الوقف، مطلب في الوقف إذا خرب ولم يمكن عمارته، ج:4، ص:377، ط:سعید)

محیط برھانی میں ہے:

"وفي «فتاوى أبي الليث:» مسجد بني على سور المدينة، فلا ينبغي أن يصلى فيه. علل الصدر الشهيد رحمه الله فقال:؛ لأن السور للعامة، فصار كما لو بنى مسجدا في أرض الغصب."

(‌‌كتاب الاستحسان والكراهية، ‌‌الفصل الخامس في المسجد، ج:5، ص:318، ط:دار الكتب العلمية)

وفیہ ایضا:

"الطريق إذا كان واسعا، فبنى فيه أهل المسجد مسجدا للعامة، ولا يضر ذلك بالطريق، فلا بأس به."

(‌‌كتاب الاستحسان والكراهية، ‌‌الفصل الخامس في المسجد، ج:5، ص:318، ط:دار الكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(جعل شيء) أي جعل الباني شيئا (من الطريق مسجدا) لضيقه ولم يضر بالمارين (جاز) لأنهما للمسلمين.

وفي الرد:(قوله: لضيقه ولم يضر بالمارين) أفاد أن الجواز مقيد بهذين الشرطين."

(كتاب الوقف، مطلب في الوقف إذا خرب ولم يمكن عمارته، ج:4، ص:377، ط:سعید)

صحیح البخاری میں ہے:

"عن منصور قال: سمعت أبا وائل يحدث عن عبد الله قال:قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (‌سباب ‌المسلم ‌فسوق، وقتاله كفر)."

(باب: ما ينهى من السباب واللعن، ج:5، ص:2247، ط:دار ابن كثير)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144412100165

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں