بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اگر قربانی کے بڑے جانور میں عقیقہ کی بھی نیت ہو تو کیا عقیقہ والے حصہ کے گوشت کی تقسیم الگ ہوگی؟


سوال

ایک بڑے جانور  کی قربانی میں اگرعقیقہ کی نیت ہوتوگوشت کو کس طرح تقسیم کیا جاۓگا ؟یعنی عقیقہ والا اور قربانی والا دونوں کے حصے الگ   کیے جائیں گے یا مشترکہ طور پر تقسیم کیا جائے گا ؟

جواب

عقیقہ کے گوشت کی تقسیم  کا طریقہ بھی وہی ہے جو قربانی کا ہے ، یعنی ایک حصہ اپنے لیے رکھنا اور ایک حصہ عزیز و اقارب میں تقسیم کرنا اور ایک حصہ فقراء میں تقسیم کرنا مستحب ہے۔

لہذا اگر جانور میں قربانی اور عقیقہ دونوں کے حصے ہوں اور جانور میں کوئی اور شریک نہ ہو  تو  اس صورت میں قربانی اور عقیقہ کے حصوں  کی تقسیم ضروری نہیں ہے،مشترکہ طور پر تقسیم کیا جاسکتا ہے ،اسی طرح اگر جانور میں قربانی کرنے والا شخص الگ ہو اور عقیقہ کی نیت کرنے والا شخص الگ ہو ،یا   اس کے علاوہ اور لوگ بھی قربانی کی نیت سے  شریک ہوں اور تمام حصہ دار ایک ہی گھر کے ہوں، مشترکہ کھانا پینا  ہو نے کی وجہ سے گوشت کی تقسیم نہ چاہتے ہوں یا پورے جانور کا گوشت متفقہ طور پر  وقف یا صدقہ کرنا چاہتے ہوں، تو اس صورت میں بھی  گوشت کی تقسیم شرعاً ضروری نہیں ۔

لیکن اگر قربانی کرنے والا الگ شخص ہو اور عقیقہ کرنے والے الگ شخص  ہو ، یعنی  جانور مشترک ہواور تمام حصہ دار  گوشت کی تقسیم چاہتے ہوں ،تو وزن کرکے ہر ایک کو  برابر برابر حصے دینا ضروری ہے،   البتہ اگر کسی حصے  میں کلیجی،  کسی میں پائے، کسی میں مغز، کسی میں دل گردہ ہو تو اس صورت میں تمام حصوں کا وزن میں برابر ہونا شرعاً ضروری نہیں، اور اس حکم میں قربانی اور عقیقے کا حصہ یک ساں ہیں۔

بدائع الصنائع میں ہے :

" والأفضل أن يتصدق بالثلث ويتخذ الثلث ضيافة لأقاربه وأصدقائه ويدخر الثلث لقوله تعالى {فكلوا منها وأطعموا القانع والمعتر} [الحج: 36] وقوله - عز شأنه - {فكلوا منها وأطعموا البائس الفقير} [الحج: 28] وقول النبي عليه الصلاة والسلام: «كنت نهيتكم عن لحوم الأضاحي فكلوا منها وادخروا» فثبت بمجموع الكتاب العزيز والسنة أن المستحب ما قلنا ولأنه يوم ضيافة الله عز وجل بلحوم القرابين فيندب إشراك الكل فيها ويطعم الفقير والغني جميعا لكون الكل أضياف الله تعالى عز شأنه  في هذه الأيام وله أن يهبه منهما جميعاً، ولو تصدق بالكل جاز ولو حبس الكل لنفسه جاز؛ لأن القربة في الإراقة".  (5/ 81ط:رشيدية)

اعلاء السنن میں ہے:

"یصنع بالعقیقة مایصنع بالأضحیة ... وفي قوله: "یأکل أهل العقیقة ویهدونها" دلیل علی بطلان ما اشتهر علی الألسن: أن أصول المولود لایأکلون منها؛ فإن أهل العقیقة هم الأبوان أولًا ثم سائر أهل البیت".

(إعلاء السنن، باب أفضلية ذبح الشاة في العقيقة، قبیل باب ما یقول الذابح عند الذبح، (17/ 127) ط: إدارة القرآن، كراتشي، الطبعة الثالثة: 1415ه)

فتاوی شامی  میں ہے:

"(قَوْلُهُ: وَيُقْسَمُ اللَّحْمُ) اُنْظُرْ هَلْ هَذِهِ الْقِسْمَةُ مُتَعَيِّنَةٌ أَوْ لَا، حَتَّى لَوْ اشْتَرَى لِنَفْسِهِ وَلِزَوْجَتِهِ وَأَوْلَادِهِ الْكِبَارِ بَدَنَةً وَلَمْ يَقْسِمُوهَا تُجْزِيهِمْ أَوْ لَا، وَالظَّاهِرُ أَنَّهَا لَا تُشْتَرَطُ لِأَنَّ الْمَقْصُودَ مِنْهَا الْإِرَاقَةُ وَقَدْ حَصَلَتْ. وَفِي فَتَاوَى الْخُلَاصَةِ وَالْفَيْضِ: تَعْلِيقُ الْقِسْمَةِ عَلَى إرَادَتِهِمْ، وَهُوَ يُؤَيِّدُ مَا سَبَقَ غَيْرَ أَنَّهُ إذَا كَانَ فِيهِمْ فَقِيرٌ وَالْبَاقِي أَغْنِيَاءُ يَتَعَيَّنُ عَلَيْهِ أَخْذُ نَصِيبِهِ لِيَتَصَدَّقَ بِهِ اهـ ط. وَحَاصِلُهُ أَنَّ الْمُرَادَ بَيَانُ شَرْطِ الْقِسْمَةِ إنْ فُعِلَتْ لَا أَنَّهَا شَرْطٌ، لَكِنْ فِي اسْتِثْنَائِهِ الْفَقِيرَ نَظَرٌ إذْ لَا يَتَعَيَّنُ عَلَيْهِ التَّصَدُّقُ كَمَا يَأْتِي، نَعَمْ النَّاذِرُ يَتَعَيَّنُ عَلَيْهِ فَافْهَمْ (قَوْلُهُ: لَا جُزَافًا) لِأَنَّ الْقِسْمَةَ فِيهَا مَعْنَى الْمُبَادَلَةِ، وَلَوْ حَلَّلَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا قَالَ فِي الْبَدَائِعِ: أَمَّا عَدَمُ جَوَازِ الْقِسْمَةِ مُجَازَفَةً فَلِأَنَّ فِيهَا مَعْنَى التَّمْلِيكِ وَاللَّحْمُ مِنْ أَمْوَالِ الرِّبَا فَلَا يَجُوزُ تَمْلِيكُهُ مُجَازَفَةً. وَأَمَّا عَدَمُ جَوَازِ التَّحْلِيلِ فَلِأَنَّ الرِّبَا لَا يَحْتَمِلُ الْحِلَّ بِالتَّحْلِيلِ، وَلِأَنَّهُ فِي مَعْنَى الْهِبَةِ وَهِبَةُ الْمَشَاعِ فِيمَا يَحْتَمِلُ الْقِسْمَةَ لَاتَصِحُّ اهـ وَبِهِ ظَهَرَ أَنَّ عَدَمَ الْجَوَازِ بِمَعْنَى أَنَّهُ لَايَصِحُّ وَلَا يَحِلُّ لِفَسَادِ الْمُبَادَلَةِ خِلَافًا لِمَا بَحَثَهُ فِي الشُّرُنْبُلَالِيَّةِ مِنْ أَنَّهُ فِيهِ بِمَعْنًى لَا يَصِحُّ وَلَا حُرْمَةَ فِيهِ (قَوْلُهُ: إلَّا إذَا ضَمَّ مَعَهُ إلَخْ) بِأَنْ يَكُونَ مَعَ أَحَدِهِمَا بَعْضُ اللَّحْمِ مَعَ الْأَكَارِعِ وَمَعَ الْآخَرِ الْبَعْضُ مَعَ الْبَعْضِ مَعَ الْجِلْدِ عِنَايَةٌ".

(كتاب الأضحية، ۶ / ۳۱۷ - ۳۱۸، ط: دار الفكر)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144212200481

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں