بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اگر قبلہ معلوم نہ ہو تو کیا کریں؟


سوال

اگر قبلہ  معلوم  نہ ہو تو کیا کریں؟

جواب

واضح رہے کہ قبلہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنا نماز کی شرائط میں سے ہے،اگر کسی نے قبلہ کی طرف رخ کیے بغیر نماز پڑھ لی تو اس کی نماز نہیں ہو گی۔

البتہ  صورتِ مسئولہ  میں اگر کسی کو قبلہ کی  سمت معلوم نہ ہو ،تو اگر نزدیک میں کوئی موجود ہو،تو اس  سے معلوم کرے،اور کوئی بتانے والا بھی نہ ہو توتحری(یعنی قبلہ معلوم کرنے میں حد درجہ کی  سوچ بچار ) کرکے جس طرف قبلہ کا گمان ہو اس طرف منہ کر کے نماز پڑھ لے،تو اس کی نماز درست  جائے گی ، اگرچہ بعد میں یہ معلوم ہوا کہ اس نے غلط سمت کی طرف نماز پڑھی ہے، لیکن اگر بغیر تحری کے نماز پڑھ لی تواس کی نماز نہیں ہوگی اور دوبارہ لوٹانا ضروری ہے، البتہ اگر نماز سے فارغ ہونے کے بعد اس کو یہ معلوم ہوا کہ میں نے صحیح سمت کی طرف نماز پڑھی ہے ،اب دوبارہ لوٹانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔

 چنانچہ فتاوی ہندیہ میں ہے : 

"و إن اشتبهت علیه القبلة ولیس بحضرته من یسأل عنها اجتہد وصلّی کذا في الهدایة فإن علم أنہ أخطأ بعد ما صلی لا یعیدها،فإن علم أنه أخطأ بعدما صلى لايعيدها وإن علم وهو في الصلاة استدار إلى القبلة وبنى عليها. كذا في الزاهدي وإذا كان بحضرته من يسأله عنها وهو من أهل المكان عالم بالقبلة فلا يجوز له التحري ،ولو كان بحضرته من يسأله عنها فلم يسأله وتحرى وصلى فإن أصاب القبلة جاز وإلا فلا."

(كتاب الصلوة،الفصل الثالث في استقبال القبلة،ج:1،ص:64،ط:دارالفكر)

 البحر الرائق میں ہے:

"وقید بالتحري لأن من صلّی ممن اشتبہت علیہ بلا تحرّ فعلیہ الإعادة."

(كتاب الصلوة،باب شروط الصلوة،ج:1،ص:303،ط:سعيد)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وإن شرع بلا تحرّ لم یجز وإن أصاب لترکه فرض التحري، إلا إذا علم إصابته بعد فراغه فلا یعید اتفاقًا."

(کتاب الصلوۃ،باب شروط الصلوۃ،مطلب في ستر العورة۔ج:1،ص:435،ط:سعید)

وفیہ ایضا:

"شروط الصلاة هي ثلاثة أنواع: شرط انعقاد: كنية، وتحريمة، ووقت، وخطبة: وشروط دوام، كطهارة وستر عورة، واستقبال قبلة".

(کتاب الصلوۃ،باب شروط الصلوۃ،1/ 401،ط:سعید)

وفيه أيضًا:

"(و) السادس (استقبال القبلة) حقيقة أو حكما كعاجز، والشرط حصوله لا طلبه، وهو شرط زائد للابتلاء يسقط للعجز، حتى لو سجد للكعبة نفسها كفر (فللمكي) وكذا المدنيلثبوت قبلتها بالوحي (إصابة عينها) يعم المعاين وغيره لكن في البحر أنه ضعيف. والأصح أن من بينه وبينها حائل كالغائب، وأقره المصنف قائلا: والمراد بقولي فللمكي مكي يعاين الكعبة (ولغيره) أي غير معاينها (إصابة جهتها) بأن يبقى شيء من سطح الوجه مسامتا للكعبة أو لهوائها، بأن يفرض من تلقاء وجه مستقبلها حقيقة في بعض البلاد خط على زوايا قائمة إلى الأفق مارا على الكعبة، و خط آخر يقطعه على زاويتين قائمتين يمنة ويسرة منح. قلت: فهذا معنى التيامن والتياسر."

(کتاب الصلوۃ،باب شروط الصلوۃ،1/ 427،ط:سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144503102059

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں