بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اگر قسم کھائی کہ امتحان میں نقل نہیں کریں گے اور یہ الفاظ پیپر شروع کرنے سے پہلے لکھے، تو اس صورت میں قسم توڑنے کا حکم


سوال

جب ہمارے آن  لائن پیپر ہوۓ تھے، اس میں ہمارے استاذ نے ہمیں پیپر حل کرنے سے پہلے   ایک بیانِ حلفی لکھنے کو کہا تھا کہ "میں اللّٰہ  تعالی   کو حاضر ناظر جان کر یہ قسم کھاتا ہوں کہ یہ پیپر میں نے خود کیا ہے اور کہیں سے نقل نہیں کیا" یا اسی طرح کے ملتے جلتے الفاظ ہم سے لکھنے کو کہا گیا تھا اپنے بیانِ حلفی میں۔

ہم میں سے کافی لوگوں نے یہ  مذکورہ   الفاظ پیپر شروع کرتے وقت لکھے تھے، لیکن اس "قسم" پر ہماری دل کی رضامندی نہیں تھی اور ہم نے یہ قسم جان بوجھ کر ایک جھوٹ کے طور پر ہی لکھی تھی۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح کی جھوٹی قسم لکھنے پر قسم کا کفارہ واجب ہوتا ہے (یعنی تین روزے رکھنا)؟ یا اس طرح کی جھوٹی قسم جان بوجھ کر لکھنے پر صرف توبہ استغفار کافی ہے؟

جواب

۱۔صورت  مسئولہ  میں   اگر  سائل  یا  ان  کے  کسی  بھی  ساتھی  نے  مذکور  ہ  "الفاظ  قسم"  پیپر  لکھنے  کے  بعد  لکھے  ہیں  اور  اس  نے  نقل  بھی  کی  ہے  تو  اس  صورت  میں  قسم  منعقد  ہوگئی   اور  اس  جھوٹی  قسم  کو     فقہی  اصطلاح  میں  "یمین  غموس"  کہتے  ہیں،  اور  اس  کا  حکم  یہ  ہے  کہ  قسم کھانے والا شدید گناہ گار ہوتا ہے، کیوں کہ ایسا شخص  اللہ رب العزت کا نام استعمال کرکے اور اللہ تعالیٰ کو گواہ بناکر جھوٹ کہتاہے ،لہذا مذکورہ بندے کو چاہیے کہ سچے دل سے توبہ کرے اور آئندہ جھوٹی قسم کھانے سے بچے، جھوٹی قسم کھانے کی وجہ سے اس پر کوئی کفارہ ادا کرنا لازم نہیں ہے، البتہ اگر اللہ تعالیٰ کی رضا کے واسطے حسبِ استطاعت کچھ صدقہ دے دے تو بہتر ہے،تا کہ اللہ پاک کی ناراضگی ا ور غضب کو صدقہ ٹھنڈا کر دے ، کم کر دے۔

اور  اگر      سائل  یا    ان  کے  دیگر  ساتھیوں  نے  پیپر  شروع  کرنے  سے  پہلے  مذکورہ  الفاظ(میں اللہ تعالیٰ   کو حاضر ناظر جان کر یہ قسم کھاتا ہوں کہ یہ پیپر میں نے خود کیا ہے اور کہیں سے نقل نہیں کیا)  کے  ساتھ  قسم  کھائی  ،تو  مذکورہ  الفاظ  سے  قسم  منعقد  نہیں  ہوئی،  کیوں کہ سائل  اور  ان  کے  ساتھیوں  نے  اب  تک  پیپر  لکھا  نہیں  ہے    تو  یہ  ایک  خلاف  واقع  بات  ہے،  اور  اس  سے  قسم  منعقد  نہیں  ہوتی۔

۲۔نیز     امتحانات میں نقل کرنا انتہائی بُرا عمل ہے،   کیوں کہ امتحان خواہ کسی بھی مرحلے  کا ہو اس کا بنیادی مقصد امتحان دینے والے کی صلاحیت اور امتحانی موضوع پر اس کی گرفت کو جانچنا ہوتا ہے، امتحان کے ذریعے شرکاءِ امتحان کے درمیان اعلیٰ اور ادنیٰ مراتب قائم کیے جاتے ہیں،  جب کہ امتحان میں نقل کرنے سے جہاں یہ مقصد فوت ہو جاتا ہے ، اسی طرح  نقل کرنے والا جھوٹ، دھوکا، خیانت، حق تلفی جیسے کبیرہ گناہوں کا مرتکب ہوتا ہے،  لہٰذا امتحانات میں نقل کرنا شرعاً ناجائز اور حرام ہے۔

۳۔  نیز   یہ  بات  بھی  واضح      رہے  کہ   اگر  کوئی  شخص  مستقبل  میں  کسی  کا  م  کے  کرنے  یا  نہ  کرنے  کی  قسم  کھاتا  ہے  تو  اس  سے  "یمین  منعقدہ  "  منعقد  ہوجاتی  ہے،  اور  پھر    اگر  وہ  شخص  اپنی  قسم  میں  حانث  ہوجائے  تو  اس  پر  قسم  کا  کفارہ  لازم  ہوتا  ہے  جو  کہ  درج  ذیل  ہے:

 "(قسم  کا  کفارہ صرف  روزہ  رکھنا  نہیں  ہے) بلکہ  قسم  کا  کفارہ  یہ  ہے  کہ   :  دس مسکینوں کو دو وقت کا کھانا کھلا دے یا دس مسکینوں میں سے ہر ایک کو صدقۃ الفطر کی مقدار کے بقدر گندم یا اس کی قیمت دے دے( یعنی پونے دو کلو گندم یا اس کی رقم )اور اگر جو دے تو اس کا دو گنا (تقریباً ساڑھے تین کلو) دے،  یا دس فقیروں کو  ایک ایک جوڑا کپڑا پہنا دے۔ اور اگر  کوئی ایسا غریب ہے کہ نہ تو کھانا کھلا سکتا ہے اور نہ کپڑا دے سکتا ہے تو مسلسل تین روزے رکھے ،اگر الگ الگ کر کے تین روزے پورے کر لیے  تو کفارہ ادا نہیں ہوگا۔ اگر دو روزے رکھنے کے بعد درمیان میں کسی عذر کی وجہ سے ایک روزہ چھوٹ گیا تو اب دوبارہ لگاتار  تین روزے رکھے۔"  

الدر المختار وحاشية ابن عابدين   میں  ہے:

"(وكفارته) هذه إضافة للشرط لأن السبب عندنا الحنث (تحرير رقبة أو إطعام عشرة مساكين) كما مر في الظهار (أو كسوتهم بما) يصلح للأوساط وينتفع به فوق ثلاثة أشهر، و (يستر عامة البدن) فلم يجز السراويل إلا باعتبار قيمة الإطعام."

 (کتاب  الأیمان، ج:3 / ص:725، ط: شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي)

اللہ  رب  العزت  کا  ارشاد  ہے:

"﴿ لا يُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمانِكُمْ وَلكِنْ يُؤاخِذُكُمْ بِما عَقَّدْتُمُ الْأَيْمانَ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعامُ عَشَرَةِ مَساكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيامُ ثَلاثَةِ أَيَّامٍ ذلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمانِكُمْ إِذا حَلَفْتُمْ وَاحْفَظُوا أَيْمانَكُمْ كَذلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آياتِهِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ﴾." (المائدة: 89)

حدیث شریف میں ہے:

"حدثنا محمد بن مقاتل، أخبرنا النضر، أخبرنا شعبة، حدثنا فراس،، قال: سمعت الشعبي، عن عبد الله بن عمرو، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " الكبائر: الإشراك بالله، وعقوق الوالدين، وقتل النفس، واليمين الغموس".

(صحيح البخاري،  كتاب الأيمان والنذور، باب اليمين الغموس، 8/ 137، ط:   دار طوق النجاة)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

" أما يمين الغموس فهي الكاذبة قصدا في الماضي والحال على النفي أو على الإثبات وهي الخبر عن الماضي أو الحال فعلا أو تركا متعمدا للكذب في ذلك مقرونا بذكر اسم الله تعالى نحو أن يقول: والله ما فعلت كذا وهو يعلم أنه فعله، أو يقول: والله لقد فعلت كذا وهو يعلم أنه لم يفعله، أو يقول: والله ما لهذا علي دين وهو يعلم أن له عليه دينا فهذا تفسير يمين الغموس."

(كتاب الأيمان، في أنواع اليمين، 3/ 3 ،ط: دار الكتب العلمية)

حدیث شریف میں ہے:

"عن أبي هريرة عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال:آية ‌المنافق ‌ثلاث: إذا حدث كذب، وإذا وعد أخلف، وإذا اؤتمن خان."

(صحيح البخاري، كتاب الإيمان، باب علامة المنافق،ج:1، ص:21، ط :دار ابن كثير)

"آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، منافق کی علامتیں تین ہیں: جب بات کرے جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے اس کے خلاف کرے اور جب اس کو امین بنایا جائے تو خیانت کرے۔"

حدیث شریف میں ہے:

"عن ‌أبي هريرة أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال:  ‌من ‌حمل ‌علينا ‌السلاح ‌فليس ‌منا، ‌ومن ‌غشنا ‌فليس ‌منا ."

(صحيح مسلم، كتاب الإيمان، باب قول النبي صلى الله عليه تعالى وسلم: من غشنا فليس منا،ج:1، ص:99، ط: دار إحياء التراث العربي)

"آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ہم پر ہتھیار اٹھایا وہ ہم میں سے نہیں اور جس نے ہمیں دھوکا دیا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔"

حدیث شریف میں ہے:

"عن أبي هريرة قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم -: من ‌تعلم ‌علمًا ‌مما ‌يبتغي ‌به وجه الله لا يتعلمه إلا ليصيب به عرضًا من الدنيا لم يجد عرف الجنة يوم القيامة."

(مسند أحمد، صحيفة همام بن منبه، ج:8، ص:193، ط: دارالحديث،القاهرة)

"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے ایسا علم صرف دنیاوی مقصد کے لیے سیکھا، جس سے اللہ تعالیٰ کی خوش نودی حاصل کی جاتی ہے، تو وہ قیامت کے دن جنت کی خوشبو تک نہیں پائے گا۔"

فقط  واللہ  اعلم


فتوی نمبر : 144410100075

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں