بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اگر پہلی بیوی دوسری شادی کرنے کی اجازت نہ دے تو کیا مرد دوسری شادی کرسکتا ہے؟


سوال

 ایک شخص ہے جس کی ایک بیوی اور دو بیٹیاں ہیں ، شوہر ایک بیوی پر اکتفا نہیں کرسکتا، ہر ممکن کوشش کے باوجود، اور کچھ بیوی کی سپورٹ بھی نہ ہونے کی بنا پر ۔ شوہر کی جائیداد  دور حاضر کو دیکھتے ہوئے تین کروڑ ہے ، شوہر دوسری شادی کرنا چاہتا ہے ، اور بیوی کا کہنا ہے کہ : بیٹیاں ہیں اس میں آپ گھر نہیں چلا پاؤ گے ، مہنگائی بہت ہے ،اور آپ کے پاس کچھ نہیں ہے،جو آتا ہے اس سے صرف گھر چلتا ہے، بیٹیاں ہیں ان کا کچھ نہیں بن سکتا، بیوی کا مزید یہ بھی کہنا ہے کہ: اگر شادی کی،تو طلاق کروادوں گی  یا میں چھوڑ کر چلی جاؤں گی ۔

تو اب شوہر کا اتنے اعذار کے باوجود دوسری شادی کرنا کیسا ہے ؟ اور اجازت نہ دینے یا اس طرح کی دھمکی کی صورت میں شوہر کا برائی میں پڑنے کا قریب سے بھی زیادہ خطرہ ہے، کیا بیوی کا اس طرح طلاق کروانا ٹھیک ہے ؟ کوئی ایسی صورت واضح کیجئے کہ آسانی ہو، اور شوہر کیا کرے ؟ اور اگر شوہر شادی کر لے تو بیوی کے مطالبے پر طلاق دینا جائز ہوگا ؟ یا کرنے کے بعد بیوی یہ کہے کہ مجھے رکھو یا اسے ،تو کیا اس طرح بیوی کی بات مانی جائے گی ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص نے جو دوسری شادی کرنے کی وجوہات میں بیوی کا سپورٹ نہ کرنا ذکر کیا ہے،اس سے اگر مراد یہ ہے کہ بیوی اس کو تعلق قائم نہیں کرنے دیتی،تو جاننا چاہیے کہ ایسی عورت پر فرشتے پوری رات لعنت کرتے ہیں،کیوں کہ اس عورت نے اپنے شوہر کی نافرمانی میں رات گزاری ہے،اگر  بیوی تعلق تو قائم کرنے دیتی ہے،لیکن شوہر حد اعتدال سے تجاوز کرتا ہے،اور بیوی کی طاقت سے زائد اس سےوظیفہ زوجیت  چاہتا ہے،تو ایسی صورت میں مرد کو چاہیے کہ وہ بیوی کا خیال کرے،اس کی طاقت سے زائد کا مطالبہ نہ کرے،وظیفۂ زوجیت سے میں اعتدال سے کام لے۔

نیز یہ بھی واضح رہے کہ اللہ تعالی نے مرد کو ایک وقت میں چار شادیاں کرنے کی اجازت دی ہے،لیکن اس کے ساتھ یہ شرط بھی رکھی ہے کہ ان چاروں کے حقوق میں برابری کرنا مرد پر ضروری ہے،حقوق سے مراد یہ ہے کہ ایک سے زائد بیویوں کے درمیان نان ،نفقہ، لباس اور شب باشی میں برابری ضروری ہے۔اگر ایک مرد کو اس بات کا یقین ہے کہ وہ ایک سے زائد شادیاں کرنے کےبعد تمام بیویوں میں عدل وانصاف کا پیمانہ قائم کرسکتا ہے،ان کے حقوق میں کوتاہی سے خود کو محفوظ رکھ سکتا ہے،تو ایسی صورت میں اس کے لیے ایک سے زائد شادیاں کرنے کی اجازت ہے۔

اور  دوسری شادی کرنے کے لیے پہلی بیوی سے اجازت لینے کی شرعا تو  ضرورت نہیں ،بلکہ اس کی اجازت کے بغیر بھی دوسرا نکاح کرنے کی مرد کو اجازت ہے،البتہ بیوی کو اعتماد میں لے لینا زیادہ بہتر ہے،تاکہ بعد کے اختلاف سے انسان محفوظ رہے،اگر بیوی نہ مانےاور  طلاق کی یا چھوڑنے کی دھمکی دیتی ہے تواس کی اس دھمکی کا کوئی اعتبار نہیں،کیوں کہ اللہ تعالی نے طلاق دینے اور چھوڑنے کا اختیار مرد کو دیاہے،نہ کہ عورت کو ،اور عورت کے لیے بھی یہ مناسب نہیں کہ اگر اس کا شوہر دوسری جگہ شادی کرنا چاہے تو اس کو اس طرح کی دھمکیاں دے کر روکے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ شخص دوسری شادی کرنا چاہتا ہے ،اور نہ کرنے کی صورت میں برائی میں پڑنے کا اندیشہ ہے،اور دوسری بیوی کے نان نفقہ کو برداشت کرنے کی طاقت ہے،تواس  کو  دوسری شادی کرنے کی اجازت ہے،شادی کے بعد اس کی پہلی  بیوی کا طلاق دلوانادرست نہیں،بلکہ اس  پر لازم ہوگا کہ پھر دونوں بیویوں کے درمیان برابری سرابری کا معاملہ رکھے،جو چیز ایک کو دے ،وہی دوسری کو بھی دے،یہاں تک کہ رات گزارنے میں بھی برابری والا معاملہ ہونا چاہیے کہ ایک رات ایک کے ساتھ ،دوسری رات دوسری کے ساتھ،باقی زیر نظر مسئلہ میں دوسری شادی کرنے کے بعد پہلی بیوی کی طرف سے اسے طلاق دینے کا مطالبہ کرنا یا دوسری بیوی کو طلاق دینے کا مطالبہ کرنا ،تو شرعا یہ دونوں مطالبے ناجائز ہوں گے۔

قرآن کریم میں ہے:

﴿ وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوْا فِي الْيَتَامٰى فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانِكُمْ ذٰلِكَ أَدْنٰى أَلَّا تَعُوْلُوْا ﴾ (النساء:3)

سنن ابی داؤد میں ہے:

"عن أبى هريرة عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: من كانت له امرأتان فمال إلى إحداهما جاء يوم القيامة وشقه مائل".

(كتاب النكاح، باب فى القسم بين النساء، ج:2، ص:297، ط:حقانية)

مشکوٰۃ المصابیح میں ہے:

"وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا دعا الرجل امرأته إلى فراشه فأبت فبات غضبان لعنتها الملائكة حتى تصبح."

(باب عشرة النساء، ج:2،ص:280، ط:قدیمی)

صحیح بخاری میں ہے:

"عن أبي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «لا يحل لامرأة تسأل طلاق أختها، لتستفرغ صحفتها، فإنما لها ما قدر لها»".

(کتاب النکاح، باب الشروط التي لا تحل في النكاح،  ج:7، ص:21، ط:دارطوق النجاۃ)

فتاوی شامی میں ہے:

"(يجب) وظاهر الآية أنه فرض نهر (أن يعدل) أي أن لا يجور (فيه) أي في القسمبالتسوية في البيتوتة (وفي الملبوس والمأكول) والصحبة (لا في المجامعة) كالمحبة بل يستحب"

(باب القسم بین الزوجات، ج:3، ص:202، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506102609

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں