بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

''اگر پیغمبر آکر کہیں تب بھی نہ مانوں '' کہنے کاحکم


سوال

زید اپنی بیوی  خالدہ سےاختلاف رکھتےہیں اوراپنی بیوی سےکہتےہیں" میرےگھرسےنکل جاؤاوردوبارہ کبھی مت آنامجھےتمہاری ضرورت نہیں اورمجھ سےرابطہ کرنےکی کوشش بھی مت کرنا"  خالدہ کہتی ہے"ٹھیک ہےمیرےدونوں بیٹےمیرےحوالےکردیں اورمجھےوالدین کےگھرپہنچادیں"ایک بچہ پانچ سال اوردوسراتین سال کاہے، خالدہ اپنےوالد کوبھی اطلاع کرتی ہے، خالدہ کےوالد زید سے نرمی سے کہتے ہیں"ٹھیک ہے خالدہ کوبچوں سمیت میرےگھرپہنچائیں"تو خالدہ کےشوہر زید یہ الفاظ کہتےہیں"اگرپیغمبرآسمان سےزمین پرآجائےاورکہے "بچوں کودےدوتب بھی میں بچوں کونہیں دوں گا" کچھ مولوی حضرات فرماتےہیں "یہ کفریہ الفاظ ہیں اس کےکہنےکےبعدتجدیدِایمان اورتجدیدِنکاح لازم آئےگا" کیاعلماءحضرات کی یہ بات درست ہے؟براہ کرم قرآن وحدیث کی روسےجواب دےکرمطمئن فرما ئیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ الفاظ"میرےگھرسےنکل جاؤ اوردوبارہ کبھی مت آنامجھےتمہاری ضرورت نہیں اورمجھ سےرابطہ کرنےکی کوشش مت کرنا"شوہرنے طلاق کی نیت سے کہے تھےتو اس سے ایک طلاقِ بائن واقع ہو جاتی ہے، جس کی وجہ سے رجوع جائز نہیں ہوتا، تاہم عدت کے دوران یا عدت مکمل ہونے کے بعد باہمی رضامندی سے سے نئے مہر کے ساتھ تجدید نکاح جائز ہوتا ہے،اوراگر مذکورہ الفاظ طلاق کے ارادہ سے نہیں کہے تھے تو کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، نکاح بدستور قائم ہے۔

جہاں تک بیوی کےوالدکےبچےمانگنےپرشوهرکاان الفاظ سےجواب دیناکہ"اگرپیغمبرآسمان سےزمین پرآجائےاورکہےبچوں کودےدوتب بھی میں بچوں کونہیں دوں گا" یہ الفاظ اتنہائی سخت ہیں مگر ان سے شوہردائرۂ اسلام سےخارج نہیں ہواالبتہ اس طرح کےنامناسب الفاظ کہنےکی وجہ سےتوبہ واستغفاراورآئندہ گفتگو میں احتیاط  لازم ہے۔

اللباب في شرح الكتاب میں ہے:

" والكنايات ثلاثة أقسام: قسم منها يصلح جوابا ولا يصلح رداً ولا شتما، وهي ثلاثة ألفاظ: أمرك بيدك، اختاري، اعتدي، ومرادفها، وقسم يصلح جوابًا وشتمًا ولايصلح رداً، وهي خمسة ألفاظ: خلية، برية، بتة، بائن، حرام، ومرادفها، وقسم يصلح جوابًا ورداً ولايصلح سباً وشتما؛ وهي خمسة أيضا: اخرجي، اذهبي، اغربي، قومي، تقنعي، ومرادفها، ففي حالة الرضا لا يقع الطلاق بشيء منها إلا بالنية، والقول قوله في عدم النية، وفي حالة مذاكرة الطلاق يقع بكل لفظ لا يصلح للرد وهو القسم الأول والثاني، وفي حالة الغضب لا يقع بكل لفظ يصلح للسب والرد وهو القسم الثاني والثالث، ويقع بكل لفظ لا يصلح لهما بل للجواب فقط وهو القسم الأول. كما في الإيضاح."

(کتاب الطلاق، ج:3 / ص:44، ط:المکتبة العلمیة)

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"وفي الجامع الأصغر إذا وقع بين رجل وبين صهره خلاف، فقال: إن بشر رسول الله ‌لم ‌آتمر بأمره لا يكفر."

(الفتاوى الهندية، ج:2 / ص:263، ط:رشيدية)

بزازیہ علی ہامش الفتاوی الہندیہ میں ہے:

"وقعت بين الرجلين منازعة فقال لوأمررسول الله لم آتمربأمره لايكفر."

(الفتاوى البزازية علي هامش الفتاوى الهندية، ج:6 / ص:345، ط: رشيدية)

صحیح بخاری میں ہے:

"عن ‌ابن عباس «أن زوج بريرة كان عبدا يقال له مغيث، كأني أنظر إليه يطوف خلفها يبكي ودموعه تسيل على لحيته، فقال النبي صلى الله عليه وسلم لعباس: يا عباس، ألا تعجب من حب مغيث بريرة، ومن بغض بريرة مغيثا؟ فقال النبي صلى الله عليه وسلم: لو راجعته. قالت: يا رسول الله، تأمرني؟ قال: إنما أنا أشفع، قالت: لا حاجة لي فيه.»

(صحيح البخاري، ج:7 / ص:48، ط:دار طوق النجاة - بيروت)

فتح الباری لابن حجرمیں ہے:

"يؤخذ منه أن بريرة علمت أن أمره واجب الامتثال فلما عرض عليها ما عرض استفصلت هل هو أمر فيجب عليها ‌امتثاله ‌أو ‌مشورة."

(فتح الباري شرح صحيح البخاري، ج:9 / ص:415، ط: دار المعرفة - بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100888

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں