بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اگرعورت خوشبو لگاۓ تو اس صورت میں اس پر غسل جنابت لازم ہوگا؟


سوال

عورت   کا پسند اور صفائی ستھرائی کے لیے خوشبو کا استعمال کرنا کیسا ہے؟ جب کہ اس کا ارادہ یہ نہیں ہے کہ نا محرم اس کی طرف مائل ہوں،اگر بغیر ارادہ کے بھی نا محرم تک خوشبو چلی جاۓ تو کیا حدیث کے مطابق اس کا  غسل ٹوٹ جاۓگا؟ یعنی صرف گھر میں اس نے  خوشبو کا استعمال کیا ہو، لیکن اچانک  ایسا نامحرم گھر میں  داخل ہو جاۓ، جس کا گھر میں آنا جانا تھا تو کیا غسل ٹوٹ جاۓ گا ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں عورت کے لیے گھر کے اندر خوشبو استعمال کرنا جائز ہے، البتہ اگر گھر میں نامحرموں کا آنا جانا ہو تو عورت کا گھر میں خوشبو کے استعمال سے اجتناب بہتر ہے، جب کہ عورت  کا خوشبو لگا کر گھر سے باہر نکلناناجائز ہے۔

البتہ اگر  عورت خوشبو لگاۓ اور نامحرم وہاں آجاۓ، یا عورت خوشبو لگا کر گھر سے باہر نکلے ،تو اس سے عورت کا غسل نہیں ٹوٹتا، بلکہ وہ بدستور پاک ہی رہتی ہے، اور ایک حدیث میں عورت کو خوشبو لگانے کے سبب جو غسلِ جنابت کی طرح غسل   کا حکم دیا گیا  ہے، یہ  حکم اس وقت ہے کہ جب خوشبو عورت کے  بدن  پر لگی ہو ، اور  مقصد یہ ہے  کہ جس طرح  جنابت لاحق ہونے کی  صورت میں جلد از جلد غسل کرلینا چاہیے، اسی طرح  اگر کسی عورت نے خوشبو لگائی ہو تو اس  کو باہر نکلنے سے پہلے ہی خوشبو  زائل کرلینی  چاہیے؛ کیوں کہ  عورت کا یوں خوشبو مہکاتے ہوئے نکلنا  نامحرم مردوں کو اس کی طرف متوجہ کرنے کا ذریعہ اور ان کی شہوت بھڑکانے کا سبب بنتا ہے،  یہی وجہ ہے کہ ایک حدیث میں آپ ﷺ نے خوشبو لگا کر باہر نکلنے والی عورت کو زانیہ قرار دیا ؛ اور  محدثین نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ ایسی عورت کو لوگ بری نظر سے دیکھتے ہیں اور زنا کے خیالات پکاتے اور منصوبے بناتے ہیں، ان کا اس طرح دیکھنا آنکھوں کا زنا ہے، جو کہ  اس عورت کی وجہ سے ہوا ہے؛ اس لیے اس خوشبو لگانے والی عورت کو بھی زانیہ کہا گیا اور اس برائی کی شدت کا اظہار کرنے کے لیے  غسل کرکے خوشبو کا ازالہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے، لہذا  یہ حکم  عورت کے لیے  خوشبو لگا کرگھر سے نکلنے کی سخت ممانعت اور اس کی مذمت   پر محمول ہے۔  

 سنن ترمذی میں ہے:

"عن أبي موسى:عن النبي صلى الله عليه و سلم قال: كل عين زانية، والمرأة إذا استعطرت فمرت بالمجلس فهي كذا وكذا يعني زانية."

(ابواب الأدب،‌‌ باب ما جاء في كراهية خروج المرأة متعطرة،487/4،ط:دار الغرب الإسلامي - بيروت)

ترجمہ:حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر آنکھ زنا کار ہے اور عورت جب خوشبو   لگا کر مجلس کے پاس سے گزرے تو وہ بھی ایسی ایسی ہے، یعنی وہ بھی زانیہ ہے“۔

سنن ابو داؤد میں ہے:

"عن ابي هريرة، قال: لقيته امراة وجد منها ريح الطيب ينفح ولذيلها إعصار، فقال: يا امة الجبار جئت من المسجد؟ قالت: نعم، قال: وله تطيبت؟ قالت: نعم، قال: إني سمعت حبي ابا القاسم صلى الله عليه وسلم، يقول:" لا تقبل صلاة لامراة تطيبت لهذا المسجد حتى ترجع فتغتسل غسلها من الجنابة"، قال ابو داود: الإعصار غبار."

(كتاب الترجل،‌‌‌‌‌‌باب في طيب المرأة للخروج،128/4،ط: المطبعة الأنصارية بدهلي)

ترجمہ:ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  سے روایت  ہے کہ ان سے ایک عورت ملی ،جس سے انہوں نے خوشبو پھوٹتے محسوس کیا، اور اس کے کپڑے ہوا سے اڑ رہے تھے، تو انہوں نے کہا: جبار کی بندی! تم مسجد سے آئی ہو؟ وہ بولی: ہاں، انہوں نے کہا: تم نے مسجد جانے کے لیے خوشبو لگا رکھی ہے؟ بولی: ہاں، تو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  نے کہا: میں نے اپنے حبیب ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”اس عورت کی نماز قبول نہیں کی جاتی جو اس مسجد میں آنے کے لیے خوشبو لگائے، جب تک واپس لوٹ کر جنابت کا غسل نہ کر لے“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: «اعصار» غبار ہے۔

 حاشيہ سندی  سنن ابن ماجہ میں ہے:

"4002 - حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة حدثنا سفيان بن عيينة عن عاصم عن مولى أبي رهم واسمه عبيد «أن أبا هريرة لقي امرأة متطيبة تريد المسجد فقال ‌يا ‌أمة ‌الجبار أين تريدين قالت المسجد قال وله تطيبت قالت نعم قال فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول أيما امرأة تطيبت ثم خرجت إلى المسجد لم تقبل لها صلاة حتى تغتسل»

ــ قوله: (‌يا ‌أمة ‌الجبار) ناداها بهذا الاسم تخويفا (وله) أي: للمسجد (حتى تغتسل) أي: تبالغ في إزالة الطيب، ولعل ذلك إذا كان على البدن، وقيل: أمرها بذلك تشديدا عليها وتشنيعا لفعلها وتشبيها له بالزنا وذلك؛ لأنها هيجت بالنظر شهوات الرجال وفتحت أبواب عيونهم التي بمنزله من يريد الزنا فحكم عليها بما يحكم على الزاني من الاغتسال من الجنابة."

(كتاب الفتن،باب فتنة النساء،483/2،ط:دار الفكر)

فتح الودود  شرح سنن أبی داود میں ہے:

"‌يا ‌أمة ‌الجبار" ناداها بهذا الاسم، "وله" أي للمسجد، "حبي" بكسر الحاء أي حبيبي، "حتى ترجع فتغتسل" أي حتى تبالغ في إزالة ذلك الطيب، ولعل ذلك إذا كان على البدن، وقيل: أمرها بذلك تشديدًا عليها وتشنيعًا لفعلها وتشبيهًا له بالزنى وذلك لأنها هيجت بالتعطر شهوات الرجال وفتحت باب عيونهم التي بمنزلة بريد الزنا، فحكم عليها بما يحكم على الزاني من الاغتسال من الجنابة والله تعالى أعلم."

(كتاب الترجل،‌‌‌‌باب [ما جاء] في المرأة تتطيب للخروج،167/4،ط:مكتبة لينة- مصر)

عون المعبود وحاشیہ ابن القيم میں ہے:

"(فقال ‌يا ‌أمة ‌الجبار) ناداها بهذا الاسم تخويفا لها (حبى) أي محبوبى (فتغتسل عسلها من الجنابة) أي كغسلها من الجنابة ،قال القارىء بأن يعم جميع بدنها بالماء إن كانت تطيبت جميع بدنها ليزول عنها الطيب وأما إذا أصاب موضعا مخصوصا فتغسل ذلك الموضع انتهى. قلت ظاهر الحديث يدل على الاغتسال في كلتا الصورتين والله أعلم."

(كتاب الترجل،‌‌‌‌باب في طيب المرأة للخروج،154/11،ط: دار الكتب العلمية - بيروت)

شرح سنن ابن ماجہ للہرری میں ہے:

"وفي رواية أبي داوود: (غسلها للجنابة) والمراد: أنَّها تبالغ في إزالة الطيب، ولعل ذلك إذا كان الطيب على البدن، وقيل: أمرها بذلك؛ تشديدًا عليها، وتشنيعًا لفعلها، تشبيهًا له بالزنا؛ وذلك لأنَّها هيجت بالنظر إليها."

(كتاب الفتن،باب فتنة النساء،121/24،ط: دار المنهاج)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144412100515

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں