اگر عورت دوسری شادی میں اپنے آپ کو کنواری ظاہر کرتی ہے تو اس پر کس قانون کے تحت کارروائی ہوگی؟
صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ عورت دوسرا نکاح پہلے شوہر کے نکاح یا اس کی عدت میں ہوتے ہوۓ کرتی ہےتو شرعاً دوسرا نکاح کرنا حرام اور باطل ہے،ایسا نکاح منعقد ہی نہیں ہوگا،اوراگرمذکورہ عورت کا پہلا نکاح طلاق یا شوہر کی وفات کے سبب ختم ہو گیا ہو اور وہ عدت بھی گزار چکی ہو اوراب دوسری جگہ شادی کرنا چاہےتو اسے چاہیے کہ اپنا طلاق یافتہ یا بیوہ ہونا بتادے؛تاکہ بعد میں مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے،البتہ اگر اس نے نہیں بتایا اور مجلسِ نکاح میں شرعی گواہوں کی موجودگی میں نکاح ہوگیا تو ایسا نکاح شرعاً منعقد ہوجائے گا، لیکن اس کا اپنے آپ کو کنواری ا ظاہرکرنا خلافِ حقیقت اور جھوٹ ہوگا، جس کی وجہ اسے جھوٹ اور دھوکا دہی کا گناہ ملےگا۔
باقی دھوکہ دہی اور خیانت کا ارتکاب کرنے کی وجہ سےایسی عورت پر کس قانون کے تحت کون سی کارروائی کی جاۓ گی ،اس بارے میں متعلقہ شعبے کے افراد سے رابطہ کیا جاۓ۔
مبسوط سرخسی میں ہے :
"ونكاح المنكوحة لا يحله أحد من أهل الأديان."
(كتاب السير، باب نكاح أهل الحرب ودخول التجار إليهم بأمان، ج: 10، ص: 96، ط: دار المعرفة)
وفیہ ایضاً:
"والخامسة: منكوحة الغير أو معتدة الغير، فإنها محرمة عليه إلى غاية وهي انقضاء العدة ثبت ذلك بقوله تعالى {والمحصنات من النساء} [النساء: 24] أي أخوات الأزواج وبقوله عز وجل {ولا تعزموا عقدة النكاح حتى يبلغ الكتاب أجله} [البقرة: 235]."
(كتاب الرضاع، ج:30، ص:289، ط:دارالمعرفة)
فتاوی شامی میں ہے:
"(وينعقد) متلبسا (بإيجاب) من أحدهما (وقبول) من الآخر (وضعا للمضي) لأن الماضي أدل على التحقيق (كزوجت) نفسي أو بنتي أو موكلتي منك(و) يقول الآخر (تزوجت، و) ينعقد أيضا (بما) أي بلفظين (وضع أحدهما له) للمضي (والآخر للاستقبال) أو للحال."
"إنما قلنا هذا؛ لأن الشرع يعتبر الإيجاب والقبول أركان عقد النكاح لا أمورا خارجية كالشرائط."
(کتاب النکاح، ج:3، ص:8،9، ط:سعید)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"(وأما ركنه) فالإيجاب والقبول، كذا في الكافي.
(ومنها) الشهادة قال عامة العلماء: إنها شرط جواز النكاح هكذا في البدائع وشرط في الشاهد أربعة أمور: الحرية والعقل والبلوغ والإسلام."
(كتاب النكاح، الباب الأول في تفسيره شرعا وصفته وركنه و شرطه و حكمه، ج:1، ص:367، ط: رشيدية)
الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:
"الزواج الباطل عند الحنفية: هو ـ كما تقدم ـ الذي حصل خلل في ركنه أو في شرط من شروط انعقاده، كزواج الصبي غير المميز والزواج بصيغة تدل على المستقبل، والزواج بالمحارم كالأخت والعمة على الرأي الراجح، والمرأة المتزوجة برجل آخر مع العلم بأنها متزوجة، وزواج المسلمة بغير المسلم، وزواج المسلم بغير الكتابية كالمجوسية والوثنية، ونحوها."
(القسم السادس: الأحوال الشخصية، الباب الأول: الزواج وآثاره، الفصل الثاني: تكوين الزواج وفيه مباحث خمسة، المبحث الرابع ـ أنواع الزواج وحكم كل نوع، حكم الزواج الباطل وأنواعه، ج:9، ص:6605، ط:دارالفكر)
الفقہ علی المذاھب الاربعہ میں ہے:
"ثم إن النكاح الفاسد قسمان: قسم يوجب المهر ويثبت به نسب، ولا تجب به عدة، ويقال له: باطل، وذلك كما إذا تزوج محرماً من محارمه، فإن العقد على واحدة منهن وجوده كعدمه، ومثله العقد على متزوجة. أو معتدة إن علم أنها للغير، فهذا العقد كعدمه، وهو عقد باطل."
(كتاب النكاح، مباحث الصداق، ج:4، ص:107،ط:دار الكتب العلمية)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144507101304
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن