بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اگر نوکری کی مدت خیر و عافیت سے پوری ہو گئی تو والدین کو حج کرواؤں گا کہنے سے حج کروانا لازم نہیں ہو گا۔


سوال

جب میں نوکری پر لگا تو میں نے اقرار کیا کہ اگر میں خیرو عافیت سے ریٹائر ہو گیا تو پنشن سے حاصل ہونے والی رقم سے والدین کو حج کراؤں گا ۔ میں نے کوئی نذر نہیں مانی تھی صرف یہ اقرار کیا تھا،اب پوچھنا یہ ہے کہ ان الفاظ سے حج کروانا لازم ہے کہ نہیں؟

اگر لازم ہے تو اس وقت والد  کا انتقال ہو چکا ہے اور والدہ حیات ہیں ،تو والد کی طرف سے حج کی ادائیگی کی کیا صورت ہو گی؟ اور  ملنے والی رقم دو بندوں کے حج کی ادائیگی کے لیے کافی نہیں ہے، اب تمام پیسوں سے والدہ کے حج کی ادائیگی کر کے باقی رقم  کو میں کاروبار میں استعمال کرسکتا ہوں یا نہیں؟

جواب

صورت مسئولہ میں سائل نے یہ الفاظ کہے تھے کہ "اگر میں خیر و عافیت سے ریٹائر ہو گیا تو پنشن سے حاصل ہونے والی  رقم سے  والدین کو حج کراؤں گا" ،یہ الفاظ نذر کے نہیں تھے بلکہ یہ سائل کا  وعدہ تھا اور  ان الفاظ سے سائل پر والدین کو حج کروانا لازم  نہیں ہوا۔ اب اگر سائل نے اپنا فرض حج ادا نہیں کیا،اور ملنے والی رقم حج کے نصاب کے بقدر ہو،  تو اس پر اس رقم سے پہلے اپنا فرض حج ادا کرنا لازم ہے، اور اگر اس نے اپنا فرض حج ادا کر لیا ہے اور وہ مرحوم والد کی طرف سے نفلی حج کروانا  چاہتا ہے توان کی طرف سے  تو خود بھی کر سکتا ہے اور کسی دوسرے سے بھی کروا سکتا ہے اور اگر سائل چاہے تو   والدہ کو حج کروا نے کے بعد بچ جانے والی رقم کو  اپنے کاروبار  میں بھی استعمال کر سکتا ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے: 

"أما الأول: فركن النذر هو الصيغة الدالة عليه وهو قوله: " لله عز شأنه علي كذا، أو علي كذا، أو هذا هدي، أو صدقة، أو مالي صدقة، أو ما أملك صدقة، ونحو ذلك"۔

(كتاب النذر5/ 81،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100577

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں