بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اگر مشترکہ قربانی کرنے والوں میں سے دو حصہ داروں کی آپس میں قطع تعلقی ہو تو قربانی درست ہوگی یا نہیں ؟


سوال

اگر مشترکہ قربانی کرنے والوں میں سے دو حصے داروں کی آپس میں قطع تعلقی ہو تو قربانی درست ہوگی یا نہیں ؟

جواب

اگر مشترکہ قربانی والوں میں سے دو حصے داروں کی آپس میں قطع تعلقی ہو تو اس سے قربانی کے وجوب کی ادائیگی پر تو اثر نہیں پڑتا، قربانی ادا ہوجائے گی تاہم قطع تعلقی کی وجہ سے اعمال کی قبولیت معلق رہتی ہے، اس لیے  مذکورہ دونوں افراد ایک دوسرے کو معاف کر کے دل صاف کر لیں اور تعلقات بحال کر لیں تا کہ عبادت کی قبولیت میں کوئی رکاوٹ نہ رہے ۔

حدیث شریف ہے:

"عن أبي أيوب الأنصاري رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ولا يحل للرجل أن يهجر أخاه فوق ثلاث ليال يلتقيان فيعرض هذا ويعرض هذا، وخيرهما الذي يبدأ بالسلام ". متفق عليه."

(كتاب الآداب، باب ما ينهى عنه من التهاجر والتقاطع واتباع العورات، الفصل الأول، ج:3، ص:1399، الرقم:5027، ط:المكتب الإسلامي)

ترجمہ:حضرت ابوایوب انصاری کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہ شخص کسی کے لئے حلال نہیں کہ وہ تین دن سے زیادہ اپنے مسلمان بھائی سے ملنا جلنا چھوڑ دے اور صورت یہ ہو کہ جب وہ کہیں ایک دوسرے کے سامنے آئیں تو یہ اپنا منہ ادھر کو پھیر لے اور وہ اپنا منہ ادھر کو پھیر لے یعنی دونوں ہی ایک دوسرے سے سلام و کلام کا اور ملاقات کا احتراز کریں اور ان دونوں میں بہتر شخص وہ ہے جو خفگی کو دور کرنے کے لئے پہل کرے اور سلام میں پہل کرے۔ (بخاری ومسلم)(مظاہرِحق)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی مسلمان سے بے تعلقی قطعا جائز نہیں ہے،اگر کسی غیر معمولی واقعہ کی وجہ سے جذبات مشتعل ہوں جب بھی تین دن سے زیادہ یہ کیفیت بر قرار نہیں رہنی چاہیے۔ 

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"(أخاه) أي: المسلم، وهو أعم من أخوة القرابة والصحابة. قال الطيبي: وتخصيصه بالذكر إشعار بالعلية، والمراد به أخوة الإسلام، ويفهم منه أنه إن خالف هذه الشريطة وقطع هذه الرابطة جاز هجرانه فوق ثلاثة اهـ. وفيه أنه حينئذ يحب هجرانه وقوله: (فوق ثلاث ليال) أي: بأيامها، وإنما جاز الهجر في ثلاث وما دونه لما جبل عليه الآدمي من الغضب، فسومح بذلك القدر ليرجع فيها، ويزول ذلك الغرض ذكره السيوطي."

(كتاب الآداب، باب ما ينهى عنه من التهاجر والتقاطع واتباع العورات، ج:8، ص:3146، ط:دار الفكر)

الفتاوی الہندیۃ میں ہے:

"والبقر والبعير يجزي عن سبعة إذا كانوا يريدون به وجه الله تعالى، والتقدير بالسبع يمنع الزيادة، ولا يمنع النقصان، كذا في الخلاصة."

(كتاب الأضحية، الباب الثامن فيما يتعلق بالشركة في الضحايا، ج:5، ص:304، ط:دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311100277

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں