بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اگر مدرک امام کے سلام کے بعد کھڑا ہو جائے تو کیا حکم ہے؟


سوال

اگر مدرک یہ سمجھا کہ اس کی ایک رکعت رہ گئی ہے اور وہ امام کے ساتھ سلام پھیرنے کے بجاۓ کھڑا ہو گیا، مگر فاتحہ پڑھنے کے بعد اسے یاد آیا کہ اس نے مکمل رکعتیں ادا کی ہیں تو اب وہ کیا کرے؟

جواب

اگر کوئی شخص امام کے ساتھ نماز میں شروع سے شامل تھا، لیکن اس کو گمان یہ ہوا کہ اس کی رکعت فوت ہوئی ہے اور وہ امام کے سلام کے بعد کھڑا ہو گیا تو ایسے شخص کو  جیسے ہی رکعت کا فوت نہ ہونا یاد آئے تو اُس کو چاہیے کہ بیٹھ جائے اور سلام پھیر لے اور اس پر  سلام کی تاخیر کی وجہ سے سجدۂ سہو واجب ہو گا۔

اور اگر پانچویں رکعت کا سجدہ کرنے کے بعد یاد آیا کہ کوئی رکعت فوت نہیں ہوئی تھی تو ایسی صورت میں مذکورہ شخص چھٹی رکعت ملا لے، اور آخر میں سجدہ سہو کر لے، اخیر کی یہ دو رکعت اُس کے لیے نفل ہوجائیں گی۔

نور الإيضاح ونجاة الأرواح في الفقه الحنفي (ص: 96)

وإن قعد الأخير ثم قام عاد وسلم من غير إعادة التشهد.

الفتاوى الهندية (1/ 129):

’’رجل صلى الظهر خمساً وقعد في الرابعة قدر التشهد إن تذكر قبل أن يقيد الخامسة بالسجدة أنها الخامسة عاد إلى القعدة وسلم، كذا في المحيط. ويسجد للسهو، كذا في السراج الوهاج وإن تذكر بعدما قيد الخامسة بالسجدة أنها الخامسة لا يعود إلى القعدة ولا يسلم بل يضيف إليها ركعة أخرى حتى يصير شفعا ويتشهد ويسلم، هكذا في المحيط. ويسجد للسهو استحسانا، كذا في الهداية وهو المختار، كذا في الكفاية ثم يتشهد ويسلم، كذا في المحيط والركعتان نافلة ولا تنوبان عن سنة الظهر على الصحيح‘‘.

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144205201190

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں