بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو القعدة 1445ھ 14 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی سے جب نباہ نہ ہوسکے تو طلاق دینے کا شرعی طریقہ


سوال

 میری شادی کو2 سال ہوچکے ہیں، میں روزگار کمانے  کے  لیے  دبئی  گیا تھا، اور  میری بیوی سے فون پر بات ہوتی تھی، ایک دن میں نے اسے کہا  کہ اپنی ذاتی تصویر سوشل میڈیا سے ہٹا  دو، وہ صحیح  نہیں ہے، ورنہ میں بات نہیں کروں  گا، لیکن اس نےاپنی تصویر نہیں ہٹائی،اور 5 دن تک مجھ سے بات نہیں کی، پھر چھٹے  دن اپنے بھائی سے کال کروا  کر  مجھ سے بات  کروائی ،تو  اس کے بھائی نے فون پر کہا کہ  میں  اس کو 3-4 دن میں سمجھا کر  واپس گھر چھوڑ دوں  گا،  تو میں نے  اس  کے بھائی کو ہاں  کہہ دیا، پھر اس  کی خالہ مجھے کال کر  کے شور کرتی تھی، تومیں نے  اس کی کال نہیں اٹھائی کہ فون پر باتیں خراب ہوں گی، اس دوران میں وہیں دبئی میں مسئلوں میں پھنسا ہوا تھا ، اس کے بعد میں  اپنی بیوی  اور اس کے  بھائی کو رمضان کی مبارک  باد  بھیجتا تھا ، لیکن کوئی  جواب نہیں   یا اعتکاف کی مبارکباد پر بھی جواب نہیں،  اسی طرح باقی چیزوں کا بھی جواب نہیں آتا تھا ان کی طرف سے ، پھر ای دن وہ خود پیغام بھیجتی ہے تو میں  صرف اتنا  پوچھتا ہو ں کہ کس کی اجازت سے وہاں بیٹھی ہو؟  تو اس نے مجھے ہر جگہ سے   بلاک کرد یا۔

اب مجھے بتایا جائے  کہ اس صورت میں  طلاق  دینے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟ 

جواب

واضح رہے کہ اللہ رب العزت کے نزدیک حلال کاموں میں سب سے  زیادہ ناپسندیدہ بات طلاق دینا ہے، اس لیے حتی الامکان کوشش کرنی چاہیے کہ طلاق کی نوبت نہ آئے؛ لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل اور اس کی بیوی  دونوں کو چاہیے کہ افہام و تفہیم کے ذریعہ مسئلہ حل کرے،اگر معاملہ آپس میں بات چیت کے ذریعہ حل نہ ہو تو  اس معاملے میں گھر کے معاملہ فہم اور بہتری پیدا کرنے والے بزرگوں کو چاہیے کہ وہ دونوں کو سمجھائیں ،نیز چوں کہ  شوہر کا تصویر ہٹانے کا مطالبہ شرعاً بھی درست ہے ،اس لیے بیوی کو چاہیے کہ شوہر کی بات مان لےتاکہ نکاح کا بابرکت رشتہ برقرار رہے۔تاہم اگر کسی طرح بھی نباہ کی صورت نہیں بن رہی ہو، تو شوہرکو اختیار ہے کہ اپنی بیوی کو طلاق دے ، بہتر طریقہ یہ ہے کہ دو اہم شرائط کے ساتھ صرف ایک طلاق دے دی جائے: 

پہلی شرط:-عورت پاکی کی حالت میں ہو۔ 
دوسری شرط:-شوہر عورت کی ایسی پاکی کی حالت میں طلاق دے رہا ہو کہ اس نے بیوی سے ہم بستری نہ کی ہو۔ 

ایک طلاق دینے کے بعد اگر بیوی بات مان لیتی ہے اور تعلقات بہتر ہوتے ہیں تو    عدت کے دوران رجوع بھی کیا جاسکتا ہے ،اس کے بعد دونوں میاں بیوی کی حیثیت سے رہ سکیں گے،تاہم آئندہ کے لیے صرف دو طلاقوں کا حق حاصل ہوگا،اگر عدت کے دوران رجوع نہیں کیا تو عدت گزرنے سے ہی نکاح ختم ہوجائے گا، البتہ  عدت گزرنے کے بعد اگر میاں بیوی دوبارہ نکاح کرنا چاہیں تو نئے مہر کے ساتھ گواہوں کی موجودگی میں نیا  نکاح بھی ہوسکتا ہے، لیکن اگر سائل نے تین طلاقیں ایک ساتھ دیں تو یہ باعث گناہ ہے،لیکن تینوں طلاقیں واقع ہوجائیں گی،اور آئندہ کے لیے دوبارہ نکاح کرنا درست نہ ہوگا۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

"(طلقة) رجعية (فقط في طهر لا وطء فيه) وتركها حتى تمضي عدتها (أحسن) بالنسبة إلى البعض الآخر."

(كتاب الطلاق، ركن الطلاق، ج:3، ص:230، ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"(هي استدامة الملك القائم) بلا عوض ما دامت (في العدة) ... (بنحو) متعلق باستدامة (رجعتك) ورددتك ومسكتك بلا نية لأنه صريح (و) بالفعل مع الكراهة (بكل ما يوجب حرمة المصاهرة)."

(كتاب الطلاق، باب الرجعة، ج:3، ص:397، ط:سعید)

وفيه ايضاً:

"(وينكح مبانته بما دون الثلاث في العدة وبعدها بالإجماع) ومنع غيره فيها لاشتباه النسب."

(كتاب الطلاق، باب الرجعة، مطلب في العقد علي المبانة، ج:3، ص:409، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502100515

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں