بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

’’اگر میں نے دوبارہ یہ گناہ کیا تو میں 500 روپے ادا کروں گا‘‘ نذر ہے یا نہیں؟ / نذر پوری کرنے کی استطاعت نہ ہو تو کیا حکم ہے؟


سوال

اگر کوئی اپنے آپ کو گناہ سےروکنے کے لیے یہ کہے کہ اگر میں نے دوبارہ یہ گناہ کیا تو میں 500 روپے دوں گا، تو یہ نذر ہے یا نہیں؟ اور اس کا ادا کرنا آدمی پر لازم ہے یا نہیں؟

اگر لازم ہو اور وہ ان پیسوں کو ادا کرنے کی قدرت نہ رکھتا ہو یعنی اس کے پاس اتنے پیسے نہیں ہوں  کہ وہ اس کو ادا کرےتو اس صورت میں کیا حکم ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  کسی آدمی کا اپنے آپ کو گناہوں سے روکنے کے لیے یہ کہنا کہ ’’اگر میں نے دوبارہ یہ گناہ کیا تو میں 500 روپے ادا کروں گا‘‘، نذر ہے، اور اس آدمی پردوبارہ گناہ کرنے کی صورت میں 500 روپے ادا کرنا لازم ہوگا۔

نیز اگر گناہ ہوجانےکے وقت اس کے پاس 500روپے نہ ہوں، توچوں کہ یہ لازم کردہ رقم حانث ہونے (قسم ٹوٹ جانے)  کے فوراً بعد ادا کرنالازم نہیں ہے؛ اس لیے  زندگی میں جب بھی 500 روپے ادا کرنے کی طاقت ہو، یہ پیسے ادا کردے، اور اگر زندگی بھر ادا کرنے کی طاقت نہ ہو، تو یہ پیسے ادا کرنے کی وصیت کرجائے، اگر وصیت بھی نہیں کی، تو نذر ماننے والا گناہ گار ہوگا۔

الفتاوي الهندية میں ہے:

"ولو قال: إن عوفيت صمت كذا لم يجب حتى يقول لله علي، وهذا قياس، وفي الاستحسان يجب، وإن لم يكن تعليق لا يجب عليه قياسا، ولا استحسانا كذا في الظهيرية."

(ص:٢١٠، ج:١، کتاب الصوم، الباب السادس فی النذر، ط:دار الفکر،بیروت)

رد المحتار على الدر المختار میں ہے:

"لأن المواعيد قد تكون لازمة لحاجة الناس.

(قوله: لأن المواعيد قد تكون لازمة) قال في البزازية في أول كتاب الكفالة إذ كفل معلقا بأن قال: إن لم يؤد فلان فأنا أدفعه إليك ونحوه يكون كفالة لما علم أن المواعيد باكتساء صور التعليق تكون لازمة فإن قوله أنا أحج لا يلزم به شيء ولو علق وقال إن دخلت الدار فأنا أحج يلزم الحج."

(ص:٢٧٧،ج:٥،کتاب البیوع،باب الصرف،ط:ایج ایم سعید)

بدائع الصنائع میں ہے:

"أما أصل الحكم فالناذر لا يخلو من أن يكون ‌نذر وسمى، أو ‌نذر ولم يسم، فإن ‌نذر وسمى فحكمه وجوب الوفاء بما سمى، بالكتاب العزيز والسنة والإجماع والمعقول ... فثبت أن حكم ‌النذر الذي فيه تسمية هو وجوب الوفاء بما سمى، وسواء كان ‌النذر مطلقا أو مقيدا معلقا بشرط بأن قال: إن فعلت كذا فعلي لله حج أو عمرة أو صوم أو صلاة أو ما أشبه ذلك من الطاعات، حتى لو فعل ذلك يلزمه الذي جعله على نفسه، ولم يجز عنه كفارة، وهذا قول أصحابنا رضي الله عنهم."

(ص:٩٠،ج:٥،کتاب النذر، فصل في حكم النذر، ط:دار الكتب العلمية)

وفيه أيضا:

"والثانية أن الكفارات كلها واجبة على التراخي هو الصحيح من مذهب أصحابنا في الأمر المطلق عن الوقت حتى لا يأثم بالتأخير عن أول أوقات الإمكان ويكون مؤديا لا قاضيا ومعنى الوجوب على التراخي هو أن يجب في جزء من عمره غير عين، وإنما يتعين بتعيينه فعلا، أو في آخر عمره؛ بأن أخره إلى وقت يغلب على ظنه أنه لو لم يؤد فيه لفات، فإذا أدى فقد أدى الواجب، وإن لم يؤد حتى مات أثم لتضييق الوجوب عليه في آخر العمر، وهل يؤخذ من تركته؟ ينظر إن كان لم يوص لا يؤخذ ويسقط في حق أحكام الدنيا عندنا كالزكاة والنذر، ولو تبرع عنه ورثته جاز عنه."

(ص:٩٦،ج:٥،کتاب الكفارات، فصل في بيان كيفية وجوب هذه الأنواع، ط:دار الكتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144504102093

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں