میں نے اپنی بیوی سے گھر سے باہر جاتے ہوئے کہا: میں جا رہا ہوں، اگر میں مر گیا تو سمجھنا کہ میں نے تمہیں طلاق دی، ان الفاظ کا کیا حکم ہے؟ میں اپنی بیوی کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں۔
صورتِ مسئولہ میں جو الفاظ شوہر کی طرف سے استعمال کیے گئے ہیں ان الفاظ سے بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، دونوں کا نکاح برقرار ہے، ساتھ رہ سکتے ہیں۔
فتاوى قاضي خان میں ہے:
"ولو قال الزوج داده انكار أو قال كرده انكار لا يقع الطلاق وان نوى كأنه قال لها بالعربية احسبي أنك طالق وان قال ذلك لا يقع۔"
(کتاب الطلاق ،جلد:2، صفحہ: 210، طبع:حافظ کتب خانه)
امداد الفتاوی جدید میں ہے:
"سوال(۱۳۰۶) : قدیم ۲/۴۴۹ - خادمہ کی لڑکی کا نکاح عرصہ سات برس کا ہوتا ہے کہ مسمیٰ فضل حسین سے ہوا یہ لڑکا پہلے چال چلن کا اچھا تھا، اب عرصہ چار پانچ برس سے نشۂ شراب میں زد وکوب سے پیش آتا ہے اور بے انتہا مارتا ہے، آخر لوگوں نے کہا کہ تم اس قدر مار تے ہو، اگر وہ موافق نہیں ہے تو اس کو طلاق دے دو، اُس نے کہا کہ تم لوگ ایسا ہی سمجھو، لہذا دو برس سے میرے گھر میں موجود ہے، ایسی صورت میں نکاح باطل ہوا یا نہیں؟ طلاق ثابت ہوئی یا نہیں ؟
الجواب: في العالمگیریۃ: امرأۃ قالت لزوجھا: مرا طلاق دہ، فقال الزوج: دادہ کیرو کردہ کیر أوقال دادہ باد، وکر دہ باد إن نوی یقع ویکون رجعیاوإن لم ینو لا یقع وفیھا ولوقال دادہ انکار اوکرد ہ انکار لایقع وان نوی ص۷۲ ، ج۲۔ اور یہ لفظ کہ تم لوگ ایسے ہی سمجھو ترجمہ دارہ انگار کا معلوم ہوتا ہے اس لئے اس سے طلاق واقع نہیں ہوئی۔"
(جلد: 5، صفحہ: 310،طبع:رشیدیۃ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144501100505
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن