بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 رجب 1446ھ 20 جنوری 2025 ء

دارالافتاء

 

”اگر میں نے یہیں یعنی بھائی کے ہاں رشتہ مانگا کسی بھی بیٹے کے لیے تو میری بیوی کو طلاق ہوگی“ کہنے کا حکم


سوال

میرے والد صاحب نے میرے چاجو سے میرے بڑے بھائی کے لیے رشتہ مانگا، مگر چاچو نے انکار کردیا جس کی وجہ سے میرے والد صاحب نے غصہ میں کہا کہ ”اگر میں نے یہیں یعنی بھائی کے ہاں رشتہ مانگا کسی بھی بیٹے کے لیے تو میری بیوی کو طلاق ہوگی“۔ اب اگر میرے والد صاحب کے علاوہ خاندان کا کوئی بھی مرد یا میں بذات خود اپنے لیے چاچو کے ہاں رشتہ مانگتا ہوں، تو اس صورت میں طلاق واقع ہوگی یا نہیں؟ اور اگر میرے والد صاحب خود رشتہ کی بات کریں تو اس صورت میں طلاق واقع ہوگی یا نہیں؟ نیز اگر یہی الفاظ یعنی میری بیوی کو طلاق ہوگی مختلف مجالس میں کئی مرتبہ کہتے ہیں، تو بھی مسئلہ کی وضاحت فرمائیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر آپ کےوالد نے یہ کہا ہے کہ ”اگر میں نے یہیں یعنی بھائی کے ہاں رشتہ مانگا کسی بھی بیٹے کے لیے تو میری بیوی کو طلاق ہوگی“ تواب  اگر آپ  کے والد نے مذکورہ بھائی کے ہاں رشتہ مانگا یا کسی کو رشتہ مانگنے کے لیے کہا تو ان کی بیوی پر ایک رجعی طلاق واقع ہوجائے گی، اگر وہ عدت میں رجوع کرلیں تو رجوع درست ہوگا اور نکاح برقرار رہے گا۔ لیکن اگر عدت گزرگئی اور انہوں نے رجوع نہیں کیا، تو ان کا نکاح اپنی بیوی کے ساتھ ختم ہوجائے گا اور رجوع کا اختیار نہ ہوگا، مطلقہ اپنی عدت (جو کہ حمل نہ ہونے کی صورت میں تین ماہواریاں اور حمل ہونے کی صورت میں وضع حمل ہے) گزار کر دوسری جگہ نکاح کے لیے آزاد ہوگی۔ تاہم اگر میاں بیوی دوبارہ ساتھ رہنا چاہیں، تو باہمی رضامندی سے ازسرنو نکاح کرنے کا اختیار ہوگا۔ بہر صورت رجوع کریں یا تجدیدِ نکاح، آئندہ کے لیے آپ کے والد کو دو طلاق کا اختیار ہوگا۔

اور اگر آپ کے والد نے مذکورہ بالا جملہ متعدد مرتبہ کہا ہےاور ہر مرتبہ طلاق کو معلق کرنے کے لیے کہا ہے ،کسی کے دریافت کرنے پر خبر یا حکایت  کے طور پرنقل نہیں کیا تو مذکورہ بھائی کے ہاں رشتہ مانگنے یا کسی اور کو رشتہ مانگنے کا کہنے کی صورت میں جتنی مرتبہ یہ جملہ کہا ہو، اتنی مرتبہ مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق طلاق واقع ہو جائے گی، یہاں تک اگر تین طلاقیں واقع ہوگئیں، تو آپ کے والد کی بیوی ان پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوجائے گی، اس کے بعد رجوع یا تجدیدِ نکاح کی گنجائش نہیں ہوگی۔ 

البتہ اگر آپ کے والد کے کہے بغیر خاندان کو کوئی اور مرد یا آپ بذات خود اپنے چچا کے یہاں رشتہ مانگیں ، تو آپ کے والد کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔ 

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا."

(کتاب الطلاق، الباب الرابع، الفصل الثالث، ج:1، ص:420، ط: دار الفکر)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما بيان حكم الطلاق فحكم الطلاق يختلف باختلاف الطلاق من الرجعي، والبائن، ويتعلق بكل واحد منهما أحكام بعضها أصلي، وبعضها من التوابع، أما الطلاق الرجعي فالحكم الأصلي له هو نقصان العدد، فأما زوال الملك، وحل الوطء فليس بحكم أصلي له لازم حتى لا يثبت للحال، وإنما يثبت في الثاني بعد انقضاء العدة، فإن طلقها ولم يراجعها بل تركها حتى انقضت عدتها بانت."

(كتاب الطلاق، فصل في بيان حكم الطلاق، ج:3، ص:180، ط: دار الكتب العلمية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض كذا في الهداية."

(كتاب الطلاق، الباب السادس في الرجعة، ج:1، ص:470، ط: دار الفكر)

بدائع الصنائع میں ہے:

"فإن كانا حرين فالحكم الأصلي لما دون الثلاث من الواحدة البائنة، والثنتين البائنتين هو نقصان عدد الطلاق، وزوال الملك أيضا حتى لا يحل له وطؤها إلا بنكاح جديد."

(کتاب الطلاق، فصل في حکم الطلاق البائن، ج:3، ص:187، ط: دار الکتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"وينكح مبانته بما دون الثلاث في العدة وبعدها بالإجماع."

(كتاب الطلاق، باب الرجعة، ج:3، ص:409، ط: ايچ ايم سعيد)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله عز وجل {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: 230] ، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة."

(کتاب الطلاق، فصل في حكم الطلاق البائن، ج:3، ص:187، ط: دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144605100747

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں