بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اگر میں نے فلاں سے بات کی تو میری بیوی کو طلاق کا حکم


سوال

ایک بندے نے کہا کہ اگر میں نے (فلاں بندے) سے بات کی تو میری بیوی طلاق ہے، شریعت میں اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جس شخص کے بارے میں یہ کہا کہ" اگر اس سے بات کی تو میری بیوی طلاق ہے" تو یہ جملہ کہنےوالا(شوہر) اگر اس شخص سے بات کرے گا تو وہ حانث ہوگا اور اس کی بیوی پر ایک طلاق رجعی واقع ہوگی، عدت کے اندر بیوی سے رجوع کرنے کا اختیار ہوگا، لیکن اس کے بعد دوبارہ اس شخص سے بات کرنے سےطلاق واقع نہیں ہوگی۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"والتعليق في الملك نوعان: حقيقي، وحكمي أما الحقيقي: فنحو أن يقول لامرأته: إن دخلت هذه الدار فأنت طالق أو ‌إن ‌كلمت فلانا أو إن قدم فلان ونحو ذلك وإنه صحيح بلا خلاف؛ لأن الملك موجود في الحال، فالظاهر بقاؤه إلى وقت وجود الشرط، فكان الجزاء غالب الوجود عند وجود الشرط فيحصل ما هو المقصود من اليمين وهو التقوي على الامتناع من تحصيل الشرط فصحت اليمين، ثم إذا وجد الشرط، والمرأة في ملكه أو في العدة يقع الطلاق."

(كتاب الطلاق، فصل في شرائط ركن الطلاق وبعضها يرجع إلى المرأة، ج:3، ص:126، ط:دار الكتب العلمية)

ہدایہ میں ہے:

"وألفاظ الشرط: إن وإذا وإذا ما وكل وكلما ومتى ومتى ما "... " ففي هذه الألفاظ إذا وجد الشرط انحلت وانتهت اليمين " لأنها غير مقتضية للعموم والتكرار لغة فبوجود الفعل مرة يتم الشرط ولا بقاء لليمين بدونه " إلا في " كلمة " كلما فإنها تقتضي تعميم الأفعال."

(كتاب الطلاق، باب الأيمان في الطلاق، ج:1، ص:246، ط:دار احياء التراث العربي بيروت)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"الطلاق الصريح وهو كأنت طالق ومطلقة وطلقتك وتقع واحدة رجعية وإن نوى الأكثر أو الإبانة أو لم ينو شيئا كذا في الكنز."

(كتاب الطلاق، الباب الثاني في إيقاع الطلاق ، الفصل الأول في الطلاق الصريح، ج:1، ص:354، ط:دار الفكر بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144505100689

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں