بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دو بیویوں والے شخص کا یہ کہنے کہ ’’ اگر میں مسجد آیا تو طلاق ہے‘‘ کا حکم


سوال

محلے دار سے لڑائی میں کہا کہ اگر میں مسجد آیا تو طلاق ہے پشتو زبان میں، اور بیویاں دو ہیں، اب صلح کے بعد مسجد جانا پڑے گا تو کیا صورت اختیار کرنا ہوگی؟

جواب

آپ جب بھی اس مسجد میں جائیں گے تو آپ کی بیوی پر ایک طلاق واقع ہوجائے گی، مذکورہ الفاظ  کہتے وقت جس بیوی کی نیت آپ نے کی تھی اسی بیوی پر ایک طلاقِ رجعی واقع ہوجائے گی، لیکن اگر مذکورہ الفاظ کہتے وقت کسی ایک بیوی کی تعیین کی نیت دل میں نہیں تھی تو اب کسی ایک کی تعیین کرنا آپ پر لازم ہوگا، جس بیوی کی آپ تعیین کریں گے اس پر آپ کے مسجد میں داخل ہوتے ہی ایک طلاق رجعی واقع ہوجائے گی، اس کی عدت کے اندر اندر آپ کو اس سے رجوع کرنے کا اختیار حاصل ہوگا۔

المبسوط للسرخسي (6/ 122):

"و إن قال: إحدى امرأتي طالق ثلاثًا، و لا نية له فذلك إليه يوقعها على أيتهما شاء فإن إيجاب الطلاق في المجهول صحيح بخلاف ما يقوله نفاة القياس، و حجتنا عليهم الحديث: «كل طلاق جائز»، ثم الأصل أن الإيجاب في المجهول يصح فيما يحتمل التعليق بالشرط؛ لأنه كالمعلق بخطر البيان في حق العين ولأن ما هو مبني على الضيق، و هو البيع يصح إيجابه في المجهول إذا كان لايؤدي إلى المنازعة، وهو ما إذا باع قفيزا من صبرة ففيما يكون مبنيا على السعة؛ لأن يصح إيجابه في المجهول كان أولى.وهذه الجهالة لاتفضي إلى المنازعة هنا؛ لأن الزوج ينفرد بالبيان كما ينفرد بالإيقاع فإن قال: أردت هذه حين تكلمت فالقول قوله؛ لأنه مالك للإيقاع عليها فيصح بيانه أيضا، وما في ضميره لا يوقف عليها إلا من جهته فيقبل قوله فيه، وإن قال: ما نويت واحدة بعينها يقال له: أوقع الآن على أيتهما شئت؛ لأن الإيقاع الأول كان على منكر، وأحكام الطلاق تتقرر في المنكر فلا بد من تعيينه فلهذا يقال له: أوقع على أيتهما شئت."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144110200706

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں