بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

’’اگر میں اس بستی کی لڑکی سے نکاح کروں تو اسے ہزار طلاق ‘‘ کہنے کا شرعی حکم


سوال

 کچھ دنوں قبل  زید کی شادی کو لے کر زید کے گھر میں بات چیت ہوئی، اور جس وقت زید کے والدین میں اختلاف ہوا۔ زید نے کہا:  میں اس رشتہ سے مطمئن نہیں ہوں، نیز زید نے یہ بھی کہا کہ میں فلاں لڑکی کو طلاق دیتاہوں جس کا علم اس کے گھروالوں کو نہیں ہوا۔ آخر جب والدین کے آپسی اختلاف اور زیادہ بڑھے تو اس وقت زید نے تمام گھر والوں کےسامنے کہا: اگر میں اس بستی کی لڑکی سے نکاح کروں تو اسے ہزار طلاق۔  اب غور طلب امر یہ ہے کہ کیا اس متعین بستی کی اس لڑکی سے نکاح کی کوئی شکل باقی رہتی ہے یا بالکلیہ ہمیشہ ہمیشہ کےلیے طلاق واقع ہوجاتی ہے؟  نیز اگر اب بھی نکاح کی کوئی شکل ہو تو ضرور مطلع کریں۔

جواب

صورتِ  مسئولہ  میں  مذکورہ  جملہ  ’’اگر  میں اس بستی کی لڑکی سے نکاح کروں تو اسے ہزار طلاق ‘‘ کہنے کے بعد اگر زید نے اسی معین بستی میں رہنے والی کسی لڑکی سے نکاح کیا تو  نکاح ہوتے ہی اس لڑکی پر تین طلاق واقع ہوجائیں گی، البتہ اگر کوئی  دوسرا شخص اس آدمی سے پوچھے بغیر دو گواہوں کی موجودگی میں کسی عورت سے  اس کا نکاح کروادے اور وہ عورت اس نکاح کو قبول کرلے اور پتہ چلنے پر مذکورہ شخص زبان سے اس نکاح کو قبول کرنے کے بجائے اپنے فعل سے (مثلاً مہر ادا کر کے)  اس نکاح پر رضامندی کا اظہار کردے  تو یہ نکاح درست ہوگا  اور  اس کے بعد طلاق بھی واقع نہیں ہوگی۔ اسی طرح اگر اس بستی کی کسی ایک لڑکی سے نکاح کرلے جس کی وجہ سے اس لڑکی پر تین طلاقیں واقع ہوجائیں تو اس کی قسم پوری ہوجائے گی، لہٰذا اس کے بعد اگر اس بستی کی کسی دوسری لڑکی سے نکاح کرے گا تو اس پر طلاق واقع نہیں ہوگی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (3 / 348):

"(قوله: إلا المضافة إلى الملك) أي في نحو: كلما تزوجت امرأةً فهي طالق ثلاثاً، فطلق امرأته ثلاثاً، ثم تزوجها، فإنها تطلق؛ لأن ما نجزه غير ما علقه، فإن المعلق طلاق ملك حادث فلايبطله تنجيز طلاق ملك قبله".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (3 / 345):

"(قوله: وكذا كل امرأة) أي إذا قال: كل امرأة أتزوجها طالق، والحيلة فيه ما في البحر من أنه يزوجه فضولي، ويجيز بالفعل كسوق الواجب إليها، أو يتزوجها بعد ما وقع الطلاق عليها؛ لأن كلمة كل لاتقتضي التكرار. اهـ. وقدمنا قبل فصل المشيئة ما يتعلق بهذا البحث". 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 352):

’’ (وفيها) كلها (تنحل) أي تبطل (اليمين) ببطلان التعليق (إذا وجد الشرط مرة إلا في كلما فإنه ينحل بعد الثلاث) لاقتضائها عموم الأفعال‘‘۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144210200576

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں