بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بینک سے قرض لی ہوئی رقم سے کسی کی دعوت کھانا


سوال

اگر کوئی شخص بینک سے  سودی قرض  لے کر   اُن ہی پیسوں سے شادی میں کھانا کھلائے ، تو کیا اس شادی میں کھانا کھانا جائز ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ قرض لینا جائز ہے ،لیکن اس قرض پر سود کی لین دین ناجائز ہے،اس لیے اگر کوئی شخص کسی سے سودی قرض کی رقم لیتا ہے تو قرض کی رقم اس کی ملکیت میں آجاتی ہے،لیکن اس پر مزید سود کی رقم دینے کا گناہ ہوگا،اب اگر کوئی شخص سودی قرض لے کر اس سے شادی کا کھانا کھلائے تو چونکہ یہ رقم اس کی ملکیت میں آچکی ہے،اس لیے اس دعوت کا کھانا کھانے کی گنجائش ہے،باقی اس سودی قرض لینے کا گناہ قرض لینے والے پر ہوگا،کھانا کھانے والوں پر نہیں ہوگا۔

تفسیرِ ابن کثیر  میں ہے:

"ثم قال تعالى:(وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُؤُسُ أَمْوالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ) أي بأخذ الزيادة ولا تظلمون أي بوضع رؤوس الأموال أيضا، بل لكم ما بذلتم من غير زيادة عليه ولا نقص منه."

(سورةالبقرة، الآية: 279، 554/1، ط: دار الكتب العلمية)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما حكم القرض فهو ثبوت الملك للمستقرض في المقرض للحال، وثبوت مثله في ذمة المستقرض للمقرض للحال، وهذا جواب ظاهر الرواية."

(كتاب القرض، فصل في حكم القرض، ج: 3، ص: 306، ط: دار الكتب العلمية)

فتاوٰی عالمگیری میں ہے:

"أهدى إلى رجل شيئا أو أضافه إن كان غالب ماله من الحلال فلا بأس إلا أن يعلم بأنه حرام، فإن كان الغالب هو الحرام ينبغي أن لا يقبل الهدية، ولا يأكل الطعام إلا أن يخبره بأنه حلال ورثته أو استقرضته من رجل، كذا في الينابيع."

(كتاب الكراهية، ‌‌الباب الثاني عشر في الهدايا والضيافات، 342/5، ط: رشيدية)

وفیہ ایضًا:

"آكل الربا وكاسب الحرام أهدى إليه أو أضافه وغالب ماله حرام لا يقبل، ولا يأكل ما لم يخبره أن ذلك المال أصله حلال ورثه أو استقرضه، وإن كان غالب ماله حلالا لا بأس بقبول هديته والأكل منها، كذا في الملتقط."

(كتاب الكراهية، ‌‌الباب الثاني عشر في الهدايا والضيافات، 343/5، ط: رشيدية)

حدیث پاک میں ہے:

"عن فضالة بن عبيد صاحب النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: " كل قرض جر منفعة فهو وجه من وجوه الربا".

(أخرجه البيهقي في الكبرى في" باب كل قرض جر منفعة فهو ربا" ج: 5،ص: 571، رقم الحديث: 10933، ط: دار الكتب العلمية)

اعلاء السنن میں ہے:

"قال ابن المنذر: أجمعوا على أن المسلف إذا شرط على المستسلف زیادة أو هدیة  فأسلف على ذلك إن أخذ الزیادة علی ذلك ربا".

(كتاب الحوالة، باب كل قرض جرّ نفعا ،ج: 14، ص: 513، ط: إدارة القرآن)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402101891

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں