بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اگر کسی مرد یا عورت سے فتنہ کا خوف ہو تو کیا اس سے قطع تعلق کیا جاسکتا ہے؟


سوال

اگر ہمیں کسی مرد یا عورت سے فتنہ کا خوف ہو تو کیا ہم اس سے قطع تعلقی کر سکتے ہیں؟

جواب

اگر تجربے سے ثابت ہوجائے کہ کسی خاص مرد یا خاص عورت سے تعلق رکھنا دین و ایمان کے لیے فتنے کا باعث بن رہا ہے تو اپنے ایمان کی حفاظت کی غرض سے ایسے مرد و عورت سے تعلق ختم کرنے کی شرعاً گنجائش ہوگی، بہتر ہوگا کہ اس بابت از خود فیصلہ کرنے کی بجائے کسی ماہر و مستند اور متبع شریعت عالم دین یا پیر طریقت کو اپنے اور اس مرد و عورت کے احوال سے مطلع کرکے مشورہ طلب کرلیا جائے اور پھر کوئی اقدام کیا جائے،عام تعلقات بوقتِ خوفِ فتنہ کر سکتے ہیں مگر جب ملیں سلام ترک نہ کریں،سلام کر لیا کریں۔

حاشية السندي على سنن ابن ماجه "میں ہے:

"قوله: (أن ‌يهجر ‌أخاه) يفهم منه إباحة الهجر إلى ثلاث وهو رخصة لأن طبع الآدمي على عدم تحمل المكروه ثم المراد حرمة الهجران إذا كان الباعث عليه وقوع تقصير في حقوق الصحبة والأخوة وآداب العشرة وذلك أيضا بين الأجانب وأما بين الأهل فيجوز إلى أكثر للتأديب فقد هجر رسول الله - صلى الله تعالى عليه وسلم - نساءه شهرا وكذا إذا كان الباعث أمرا دينيا فليهجره حتى ينزع من فعله وعقده ذلك فقد أذن رسول الله - صلى الله تعالى عليه وسلم - في هجران الثلاثة الذين تخلفوا خمسين ليلة حتى صحت توبتهم عند الله، قالوا وإذا خاف من مكالمة أحد ومواصلته ما يفسد عليه دينه أو يدخل عليه مضرة في دنياه يجوز له مجانبته والحذر منه فرب هجر جميل خير من مخالطة مؤذية."

(باب اجتناب البدع والجدل:1/ 23، دارالجيل بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403100331

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں