ایک آدمی دوسرے کے ساتھ احسان کا معاملہ کرے اور پھر وہ آگے سے اس بندے کے ساتھ کوئی برائی کرے تو اس موقع پر پشتو میں ایک کہاوت کہی جاتی ہے اور احسان کرنے والا کہتا ہے کہ ’’اگر کسی کے ساتھ اچھائی نہ کرو تو برائی نہیں ملتی‘‘ تو اس کہاوت کے کہنے کا کیا حکم ہے ؟
شریعتِ مطہرہ دوسروں کے ساتھ اچھائی کرنے کا حکم دیتی ہے اگرچہ دوسرے کی طرف سے برائی ہی کیوں نہ ملے، لہٰذا مذکورہ جملہ ’’اگر کسی کے ساتھ اچھائی نہ کرو تو برائی نہیں ملتی‘‘ کہنا مناسب نہیں ہے، تاہم اگر کوئی کسی کی بدسلوکی کے جواب میں جذبات میں ایسا کہہ دیتا ہے تو وہ گناہ گار نہیں ہوگا، البتہ ایسا مناسب نہیں، کیوں کہ احسان کے بدلے میں احسان ہی عمومی ضابطہ ہے اور ہوتا بھی ایسا ہی ہے اور شریعت کا ضابطہ بھی یہی ہے، لیکن اگر کوئی بے وفائی کرے تو یہ شاذ و نادر بات ہے اور شاذ و نادر بات پر ضابطہ یا محاورہ نہیں بنانا چاہیے، اس لیے کہ شریعت میں احسان جتلانے کو نا پسند کیا گیا ہے۔
سنن نسائی میں ہے:
"عن عبد الله بن عمرو، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: لا يدخل الجنة منان، ولا عاق، ولا مدمن خمر."
(کتاب الأشربة، الروایة فی المدمنین فی الخمر، ج: 8، ص: 318، ط: مکتب المطبوعات الإسلامیة)
ترجمہ: ’’ احسان جتلانے والا، والدین کا نافرمان اور شراب پینے کا عادی (یہ تین لوگ) جنت میں نہیں جائیں گے۔‘‘
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144401101442
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن