بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اگر کسی عالم کے بارے میں الہامی نبی ہونے کا عقیدہ رکھا جائے تو اس کا کیا حکم ہے ؟


سوال

 اگر کوئی  مسلمان کسی دوسرے عالم کو الہامی نبی مانے یا کہے،تو یہ کیسا ہے؟ یعنی یہ عقیدہ رکھنے والے پر شریعت کا کون سا حکم لگے گا؟ براہ کرم وضاحتی جواب دیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو الہامی نبی ماننے کا عقیدہ رکھےیا زبان سے کہے ،تو ایسا شخص   دائرہ اسلام سے خار ج ہےاور اس پر تجدید ایمان لازمی ہے اور شادی شدہ ہونے کی صورت میں تجدیدِ نکاح کرنا بھی ضروری ہے۔ 

یہ تحریر آپ کے سوال کا اصولی جواب ہے،باقی اس جواب کو کسی خاص شخص پر کلی طور پر منطبق نہیں کیا جاسکتا ،بلکہ یہ دیکھا جائے گا کہ کہنے والے کے الفاظ کیا ہیں؟بات کا سیاق و سباق  کیا ہے؟اور دیگر قرائن کیا ہیں؟اور وہ آدمی اس عالم کو الہامی نبی کیوں کہتا ہے ان باتوں کی تفصیل آنے کے بعد تفصیلی جواب دیا جائے گا۔

شرح العقيدة الطحاوية للبراك میں ہے:

" قوله: (وإنه خاتم الأنبياء، وإمام الأتقياء، وسيد المرسلين).

أي الذي ختم به الأنبياء فلا نبي بعده، وقد دل على ذلك قوله سبحانه: (ما كان محمد أبا أحد من رجالكم ولكن رسول الله وخاتم النبيين)، وقال تعالى: (وما محمد إلا رسول قد خلت من قبله الرسل) فجميع الرسل، والأنبياء قد مضوا قبله، فلا نبي، ولا رسول بعده - صلى الله عليه وسلم.

وقد دلت نصوص كثيرة من السنة على أنه صلى الله عليه وسلم لا نبي بعده، فمن أسمائه - صلى الله عليه وسلم - العاقب وهو الذي جاء بعد الأنبياء، فلا نبي بعده.

وفي حديث ثوبان رضي الله عنه : (إنه سيكون في أمتي كذابون ثلاثون كلهم يزعم أنه نبي، وأنا خاتم النبيين لا نبي بعدي).

وهذه قضية معلومة من دين الإسلام بالضرورة ليس في ذلك اختلاف، ولا خفاء بل هو أمر ظاهر مثل الشمس، ومن شك في أنه - صلى الله عليه وسلم - خاتم النبيين فهو كافر، فضلا عن من يدعي النبوة، أو يصدق مدعيها.

إذا؛ فلا بد في شهادة أن محمدا رسول الله من الإيمان بأنه خاتم الأنبياء." 

( من خصائصه - صلى الله عليه وسلم - أنه خاتم الأنبياء وسيد المرسلين، ص:91، ط:دار التدمرية)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144503100709

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں