بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیماری سے تنگ آکر یہ جملہ کہنا کہ اگر اللہ نے اس کے نصیب میں شفا لکھی ہوگی تو بھی نہیں ملے گی


سوال

میری بیٹی چند ماہ  سے شدید بیمار ہے، ماں کے لیے اس کو دیکھنا مشکل ہے اور اس کی وجہ سے کافی پریشان رہتی ہے، تنگ آکر اس نے ایک دفعہ کہا "اگر خدا نے اس کے نصیب میں شفا لکھی ہوگی توبھی نہیں ملے گی" اور ایک دفعہ کہاکہ"خدا نے اس سے نظر ہٹالی ہے جاکر اسے دفنادو" میں نے تنبیہ کی تو کہا کہ میری بددعائیں اس کے لیے دعائیں ہیں، پوچھنا یہ ہے کہ ان باتوں سے ایمان یا نکاح پر کوئی اثر پڑا ہے یا نہیں؟ میں نے اسے کلمہ پڑھادیا ہے، اب بتائیں کہ تجدید ِ نکاح بھی کروں یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں آپ کی بیوی کا یہ کہنا کہ " اگر خدا نے اس کے نصیب میں شفا لکھی ہوگی توبھی نہیں ملے گی" کفریہ جملہ ہے، جس میں اللہ تعالی کی طرف عِجز ( بے بسی) کی نسبت کی گئی ہے، گویا کہ اللہ تعالی نے تو مریضہ  کی شفا کا فیصلہ تقدیر میں لکھ دیا ہے لیکن اپنے لکھے کو پورا نہیں کرسکتا( العیاذ باللہ) ۔ لہذا تجدید ِ  ایمان کے ساتھ ساتھ تجدید ِ نکاح بھی لازم ہے اور آئندہ اس قسم کی باتوں سے اجتناب کیا جائے۔  

نیز دوسرے  جملے"خدا نے اس سے نظر ہٹالی ہے جاکر اسے دفنادو"  نہایت ہی غلط اور بد دعا پر مبنی جملہ ہے، تاہم اس میں چونکہ تاویل ممکن ہے اس لیے اسے کفریہ جملہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔  

حدیث شریف میں ہے: 

"عن ابن عباس، قال: كنت خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما، فقال: يا غلام إني أعلمك كلمات، احفظ الله يحفظك، احفظ الله تجده تجاهك، إذا سألت فاسأل الله، وإذا استعنت فاستعن بالله، واعلم أن الأمة لو اجتمعت على أن ينفعوك بشيء لم ينفعوك إلا بشيء قد كتبه الله لك، ولو اجتمعوا على أن يضروك بشيء لم يضروك إلا بشيء قد كتبه الله عليك، رفعت الأقلام ‌وجفت ‌الصحف۔"

(سنن الترمذي: 4/ 248، أبواب صفة القيامة والرقائق والورع)

ترجمہ: "حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ میں ایک مرتبہ (سواری پر) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ سلم  نے فرمایا اے لڑکے میں تمہیں چند باتیں سکھاتا ہوں وہ یہ کہ ہمیشہ اللہ کو یاد رکھ وہ تجھے محفوط رکھے گا۔ اللہ تعالیٰ کو یاد رکھ اسے اپنے سامنے پائے گا۔ جب مانگے تو اللہ تعالیٰ سے مانگ اور اگر مدد طلب کرو تو صرف اسی سے مدد طلب کرو اور جان لو کہ اگر پوری امت اس بات پر متفق ہو جائے کہ تمہیں کسی چیز میں فائدہ پہنچائیں تو بھی وہ صرف اتنا ہی فائدہ پہنچا سکیں گے جتنا اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے اور اگر تمہیں نقصان پہنچانے پر اتفاق کر لیں تو ہرگز نقصان نہیں پہنچا سکتے مگر وہ جو اللہ تعالیٰ نے تیرے لئے لکھ دیا۔ اس لئے کہ قلم اٹھا دیئے گئے اور صحیفے خشک ہو چکے۔"

مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح میں میں ہے:

"وخلاصته أنه كتب في اللوح المحفوظ ما كتب من التقديرات، ولا يكتب بعد الفراغ منه شيء آخر، فعبر عن سبق القضاء والقدر برفع القلم، وجفاف الصحيفة تشبيها بفراغ الكاتب في الشاهد من كتابته، وقد سبق في أول الكتاب حديث: «إن أول ما خلق الله القلم فقال: اكتب. قال: وما أكتب؟ قال: اكتب القدر، فكتب ما كان وما هو كائن إلى الأبد، وحديث جف القلم على علم الله أي: ما علمه الله وحكم به في الأزل لا يتغير ولا يتبدل» ، وجفاف القلم عبارة عنه، والله تعالى أعلم۔"

(مرقاة المفاتيح : 8/ 3324 ، ط: دارالفكر بيروت)

"(ومنها ما يتعلق بذات الله تعالى وصفاته وغير ذلك) يكفر إذا وصف الله تعالى بما لا يليق به، أو سخر باسم من أسمائه، أو بأمر من أوامره، أو نكر وعده ووعيده، أو جعل له شريكا، أو ولدا، أو زوجة، أو نسبه إلى الجهل، أو العجز، أو النقص ويكفر بقوله يجوز أن يفعل الله تعالى فعلا لا حكمة فيه ويكفر إن اعتقد أن الله تعالى يرضى بالكفر كذا في البحر الرائق۔"

( الهندية:2/ 258، كتاب السير، الباب التاسع في احكام المرتدين، ط: رشيدية)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144305100801

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں