بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اگر کسی نے حج کے ارکان ادانہیں کیے تو کیا اس کا حج ہو جائے گا؟


سوال

اگر کسی نے حج کے ارکان ادانہیں  کیے تو کیا اس کا حج ہو جائے گا؟

جواب

حج کی بنیادی شرائط میں سے ایک شرط احرام کا باندھنا ہے  یعنی دل سے حج کی نیت کرکے مکمل  تلبیہ پڑھنا، اس کے بغیر حج کی ادائیگی نہیں ہوتی، احرام میں داخل ہوجانے کے بعد حج کے ارکان دو ہیں:(1)نویں ذی الحجہ کو زوالِ آفتاب کے بعد سے لے کر دسویں ذی الحجہ کی صبح صادق کے درمیان میدانِ عرفات میں ٹھہرناجسے "وقوف عرفہ "کہا جاتاہے ، چاہے کچھ ہی دیر کے لیے ٹھہرے (یہ حج کا رکنِ اعظم ہے، اگر کسی نے وقوفِ عرفہ نہ کیا،تو رکن ادا نہ کرنے کی وجہ سے حج ہی نہیں ہوگا، چاہے دم ہی  کیوں نہ دے دے۔

(2)طوافِ زیارت ہے جو کہ وقوفِ عرفہ کے بعد کیا جاتا ہے، (جب تک حاجی طوافِ زیارت نہ کرلے اس کا حج مکمل نہیں ہوتا اور  بیوی اس کے لیے حلال نہیں ہوتی، اس کا وجوبی وقت دسویں ذی الحجہ کے سورج طلوع ہونے سے لے کر بارہویں ذی الحجہ کے سورج غروب ہونے تک ہے، وقتِ مقررہ کے دوران طواف نہ کرنے کی صورت میں دم لازم ہوتا ہے)۔

في البحر الرائق شرح كنز الدقائق:

"( باب الإحرام )۔۔۔أحرم الرجل إذا دخل في حرمة لا تنتهك من ذمة وغيرها ، وأحرم للحج لأنه يحرم عليه ما يحل لغيره من الصيد والنساء ونحو ذلك ، وأحرم الرجل إذا دخل في الحرم أو دخل في الشهر الحرام وأحرمه لغة في حرمه العطية أي منعه كذا في ضياء الحلوم مختصر شمس العلوم وهو في الشريعة نية النسك من حج أو عمرة مع الذكر أو الخصوصية على ما سيأتي ، وهو شرط صحة النسك كتكبيرة الافتتاح في الصلاة".

(كتاب الحج،باب الإحرام،ج:2،ص:344،ط: دار الكتاب الإسلامي)

في الدر المختار شرح تنوير الأبصار:

"( و ) الحج ( فرضه ) ثلاثة ( الإحرام ) وهو شرط ابتداء وله حكم الركن انتهاء حتى لم يجز لفائت الحج استدامه ليقضي به من قابل ( والوقوف عرفة ) في أوانه سميت به لأن آدم وحواء تعارفا فيها ( و ) معظم ( طواف الزيارة ) وهما ركنان".

(كتاب الحج۔ج:2،ص:466،ط:سعيد)

في المحيط البرهاني: 

"الفصل الثاني: في بيان ركن الحج وكيفية وجوبه:فنقول: ركن الحج شيئان: الوقوف بعرفة، وطواف الزيارة إلا أن الوقوف بعرفة في الركنية فوق طواف الزيارة؛ لأن الوقوف يؤدى في حال قيام الإحرام من كل وجه، والطواف يؤدى حال قيام الإحرام من وجه؛ لأنه يؤدى بعد الحلق، وقد حصل التحلل بالحلق عن جميع المحظورات إلا النساء، ولأجل ذلك قلنا: إذا جامع قبل الوقوف بعرفة فسد حجه، وعليه القضاء، ولو جامع بعد الوقوف بعرفة قبل طواف الزيارة لا يفسد حجه، ولا قضاء عليه".

(كتاب المناسك،الفصل الثالث: في تعليم أعمال الحج،ج:2،ص:420،ط: دار الكتب العلمية بيروت لبنان)

تحفة  الفقهاء میں ہے: 

" وأما ركن الحج فشيئان الوقوف بعرفة وطواف الزيارة ... ثم إذا ترك الركن لا يجوز الحج ولا يجزىء عنه البدل من ذبح البدنة والشاة."

( كتاب المناسك،مسئلة الحج،ج:1،ص:381،ط: دار الكتب العلمية بيروت لبنان)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144311100988

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں