میرا ایک دوست باوجود شادی شدہ ہونے کے باوجود دوسری لڑکی سے محبت کرتا ہے،اب اسی دوران اس نے اپنی محبوبہ کو میسج کیا ،اس میں لکھا کہ:میں کل اپنی فلاں بیوی (نام لے کر) کوطلاق دوں گا ،اگر نہیں دیا تو میری طرف سے اس کو تین طلاقیں واقع ہوجائیں گی،یہ میسج اس نے دو دفعہ کیا ہے۔
اب شرعا اس کا کیا حکم ہے طلاق واقع ہوئی ہے یا نہیں؟اگر ہوئی ہیں تو کتنی طلاق ہوئی ہیں؟
نوٹ:وہ بندہ کہہ رہا ہے میں یہ الفاظ اپنی بیوی سے نہیں کہے بلکہ اپنی محبوبہ سے کہے ہیں(البتہ یہ بات بیوی سے متعلق ہے)۔
مذکورہ شخص نے جب اپنی بیوی سے متعلق یہ میسج کیا :"میں کل اپنی فلاں بیوی (نام لے کر) کوطلاق دوں گا ،اگر نہیں دیا تو میری طرف سے اس کو تین طلاقیں واقع ہوجائیں گی" ایسی صورت میں مذکورہ شخص کی بیوی کی تین طلاقیں اس کے اگلے دن طلاق نہ دینے پر معلق (موقوف )ہوگئیں،اب اگر اس شخص نے اس میسج سے اگلے دن بیوی کو کوئی طلاق نہیں دی تو دن کے گزرتے ہی یہ تینوں موقوف طلاقیں واقع ہو گیئں،اس کی بیوی اس پر حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہوچکی ہے،اب نہ رجوع ہوسکتا ہے اور نہ نکاح جائز ہے،عورت عدت گزارنے کے بعد دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی۔البتہ اگر شوہر نے اس میسج کے اگلے دن اپنی بیوی کو کوئی بھی طلاق دے دی تو پھر یہ تینوں طلاقیں واقع نہیں ہوئیں ۔اس صورت میں جو طلاق دی ہے اس کی تفصیل بتا کر حکم معلوم کیا جاسکتا ہے۔
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"(أما تفسيرها شرعا) فاليمين في الشريعة عبارة عن عقد قوي به عزم الحلف على الفعل أو الترك كذا في الكفاية.
وهي نوعان: يمين بالله تعالى، أو صفته، ويمين بغيره، وهي تعليق الجزاء بالشرط كذا في الكافي".
(كتاب الأيمان،الباب الأول في تفسير الأيمان شرعا وركنها وشرطها وحكمها،ج:2ص:51،ط:رشدية)
وفيه أيضا:
"وإذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق."
( كتاب الطلاق، الباب الرابع في الطلاق بالشرط، الفصل الثالث في تعليق الطلاق بكلمة إن وإذا وغيرهما، ج:1،ص:420، ط: دار الفكر)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144512101050
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن