بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اگر عشاء کی نماز مؤخر ہوجائے تو پہلے تہجد پڑھیں گے یا عشاء؟


سوال

  کیا رات عشاء کی نماز اگر رات کے پچھلے پہر میں ادا کی جائے، اور اس کے بعد تہجد کی نماز پڑھی   جاسکتی ہے؟ 

جواب

واضح رہے کہ تہجد  کی نماز کا وقت عشاء کی نماز  کے بعد سے صبح صادق تک  ہے، عشاء کی نماز سے پہلے تہجد کی نماز نہیں ہوگی، بلکہ  عام نفل ہوجائیں گے؛ لہذا اگر کسی شخص نے عشاء کی نماز نہیں پڑھی اور سوگیا،  پھر طلوعِ  فجر  سے پہلے پہلے اٹھ گیا تو اس کو چاہیے کہ سب سے پہلے عشاء کی نماز ادا کرے،  اور اگر وقت ہو تو وتر سے پہلے پہلے  تہجد کی نماز پڑھ کر آخر میں وتر پڑھ لے،اس لیے کہ یہ عشاء کا آخری وقت  بھی ہے  اور  تہجد کا وقت بھی ۔تاہم   عذر کے بغیر آدھی رات سے زیادہ تاخیر کرکے عشاء کی نماز ادا کرنا مکروہ ہے،  اس لیے آدھی رات سے پہلے عشاء کی نماز  پڑھ  لیا کرے  تاکہ کراہت  نہ  ہو،نیز عشاء کی نماز ادا کرنے سے پہلے بلاعذر سونا بھی شرعًا پسندیدہ نہیں ہے، کیوں کہ اس سے عشاء کی نماز  میں تاخیر کا غالب گمان ہوتاہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"قال في البحر: فمنها ما في صحيح مسلم مرفوعاً: «أفضل الصلاة بعد الفريضة صلاة الليل». وروى الطبراني مرفوعاً: «لا بد من صلاة الليل ولو حلب شاة، وما كان بعد صلاة العشاء فهو من الليل». وهذا يفيد أن هذه السنة تحصل بالتنفل بعد صلاة العشاء قبل النوم. 
قلت: قد صرح بذلك في الحلية، ثم قال فيها بعد كلام: ثم غير خاف أن صلاة الليل المحثوث عليها هي التهجد. وقد ذكر القاضي حسين من الشافعية أنه في الاصطلاح التطوع بعد النوم، وأيد بما في معجم الطبراني من حديث الحجاج بن عمرو - رضي الله عنه - قال: «يحسب أحدكم إذا قام من الليل يصلي حتى يصبح أنه قد تهجد، إنما التهجد المرء يصلي الصلاة بعد رقدة»، غير أن في سنده ابن لهيعة وفيه مقال، لكن الظاهر رجحان حديث الطبراني الأول؛ لأنه تشريع قولي من الشارع صلى الله عليه وسلم بخلاف هذا، وبه ينتفي ما عن أحمد من قوله: قيام الليل من المغرب إلى طلوع الفجر اهـ ملخصاً.
أقول: الظاهر أن حديث الطبراني الأول بيان لكون وقته بعد صلاة العشاء، حتى لو نام ثم تطوع قبلها لايحصل السنة، فيكون حديث الطبراني الثاني مفسراً للأول، وهو أولى من إثبات التعارض والترجيح لأن فيه ترك العمل بأحدهما ولأنه يكون جارياً على الاصطلاح ولأنه المفهوم من إطلاق الآيات والأحاديث ولأن التهجد إزالة النوم بتكلف مثل: تأثم أي تحفظ عن الإثم؛ نعم صلاة الليل وقيام الليل أعم من التهجد، وبه يجاب عما أورد على قول الإمام أحمد هذا ما ظهر لي."

(كتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل، ج:2، ص:24، ط:دار الفكر۔بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144504101348

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں