بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اگر امام نے فجر کی سنتیں نہ پڑھی ہوں اور مقتدی جماعت کے انتظار کر رہے ہوں تو امام کیا کرے؟


سوال

فجرکی نمازکے لیے جماعت کا مقررکردہ وقت ہو گیاہو اور امام لیٹ ہو جائے تو کیا امام سنتیں ادا کر کے ہی نماز پڑھائے،  یابعد میں اداکر سکتا ہے؟ جیسے عام نمازی کے لیے اجازت ہے۔جب کہ نمازی منتظر ہوں۔

جواب

 فجر کی  سنتِ مؤکدہ  کی تاکید دیگر سنتوں سے  زیادہ ہے، اس لیے  امام کو چاہیے کہ وہ جماعت کے طے شدہ وقت سے پہلے ہی سنت ادا کرنے کا اہتمام کرلے، اور  اگر کبھی جماعت کا وقت ہوجائے اور امام نے سنتیں نہ پڑھی ہوں تو مقتدیوں کو چاہیے کہ امام کو سنتوں کی ادائیگی کاموقع دے دیں، لیکن اگر امام کسی وجہ سے  سنتیں پڑھے بغیربھی فرض نماز پڑھالے تو نماز کسی قسم کی کراہت کے بغیر  ادا ہوجائے گی، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ آں حضرت ﷺ اگر ظہر سے پہلے چار سنتیں نہیں پڑھ سکتے تھے تو بعد میں پڑھ لیا کرتے تھے (اور ظاہر ہے آں حضرتﷺ ہی امام ہوا کرتے تھے)۔

باقی  سنتوں کی مستقل طور پر قضا نہیں ہے، البتہ فجر کی سنتوں کی تاکید کی وجہ سے یہ حکم ہے کہ جس دن فجر کی سنت تنہا یا فجر کی فرض نماز کے ساتھ رہ جائے تو اشراق کا وقت ہوجانے کے بعد سے لے کر اسی دن زوال کے وقت تک فجر کی سنت ادا کی جاسکتی ہے، لہذا  امام صاحب یا کسی بھی مقتدی کو  فجر کی نماز سے پہلے اگر سنت ادا کرنے کا موقع نہیں مل سکا ہو تو نماز کے بعد اشراق  کا وقت ہونے سے پہلے ان کے لیے  سنت ادا کرنا  درست نہیں ہے، البتہ  اشراق کا وقت داخل ہونے کے بعد سے لے کر اسی دن زوال تک فجر کی سنت  ادا کی جاسکتی ہے۔

فتاوی شامی میں ہے :

"(و لايقضيها إلا بطريق التبعية ل) قضاء (فرضها قبل الزوال لا بعده في الأصح)؛ لورود الخبر بقضائها في الوقت المهمل. 

(قوله: و لايقضيها إلا بطريق التبعية إلخ) أي لايقضي سنة الفجر إلا إذا فاتت مع الفجر؛ فيقضيها تبعاً لقضائه لو قبل الزوال، و ما إذا فاتت وحدها فلاتقضى قبل طلوع الشمس بالإجماع؛ لكراهة النفل بعد الصبح. و أما بعد طلوع الشمس فكذلك عندهما. وقال محمد: أحب إلي أن يقضيها إلى الزوال، كما في الدرر. قيل: هذا قريب من الاتفاق؛ لأن قوله: "أحب إلي" دليل على أنه لو لم يفعل لا لوم عليه. وقالا: لايقضي، وإن قضى فلا بأس به، كذا في الخبازية. ومنهم من حقق الخلاف وقال: الخلاف في أنه لو قضى كان نفلاً مبتدأً أو سنةً، كذا في العناية يعني نفلاً عندهما، سنةً عنده، كما ذكره في الكافي إسماعيل".

(کتاب الصلاۃ ،باب ادراک الفریضۃ،ج:2،ص:57،سعید)

احسن الفتاوی میں ہے :

"امام پر وقت متعین کی رعایت کرنا لازم ہے ،اس لیے وقت جماعت سے قبل  سنتوں سے فراغت کا اہتمام کرے ،اگر کبھی کسی عذر سے تاخیر ہوگئی تو مقتدیوں کو چاہیے کہ امام کو سنتیں ادا  کرنے کا موقع دیں ،اگر ایسا نہیں کیا گیا اور بدوں سنتیں ادا کیے نماز پڑھادی تو درست ہے ."

( باب الامامۃ والجماعۃ،ج:3،ص:286،دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507100002

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں