بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اگر عشاء کی نماز مؤخر ہوجائے تو پہلے تہجد پڑھیں گے یا عشاء؟


سوال

اگر کوئی عشاءکی نمازپڑھنے  سے پہلے سو جائےتو کیا رات کو دو  بجے یا تین بجے اٹھ کے نماز عشا ءادا کرسکتا ہے؟ اور اگر کر سکتا ہے ، تو تہجد سے پہلے یا بعد میں کس طرح پڑھنی چاہیے ؟

جواب

واضح رہے کہ طلوعِ  فجر تک عشاء کا آخری وقت باقی رہتا ہے اگر کسی شخص نے عشاء کی نماز نہیں پڑھی اور سوگیا،  پھر طلوعِ فجر سے پہلے  پہلے عشاء کی نماز پڑھ لے تو وہ نمازادا شمارہوگی ، اس لیے کہ یہ عشاء کا آخری وقت ہے۔ البتہ  عذر کے بغیر آدھی رات سے زیادہ تاخیر کرکے عشاء کی نماز ادا کرنا مکروہ ہے،  اس لیے آدھی رات سے پہلے عشاء کی نماز  پڑھ  لیا کرے؛ تاکہ کراہت  نہ  ہو۔نیز عشاء کی نماز ادا کرنے سے پہلے بلاعذر سونا بھی شرعًا پسندیدہ نہیں ہے، کیوں کہ اس سے عشاء کی نماز  میں تاخیر کا غالب گمان ہوتاہے۔

تہجد  کی نماز کا وقت عشاء کی نماز  کے بعد سے صبح صادق تک  ہے۔ عشاء کی نماز سے پہلے تہجد کی نماز نہیں ہوگی، بلکہ  عام نفل ہوجائیں گے۔اگر کسی شخص نے عشاء کی نماز نہیں پڑھی اور سوگیا،  پھر طلوعِ  فجر  سے پہلے پہلے اٹھ گیا تو اس کو چاہیے کہ سب سے پہلے عشاء کی نماز ادا کرے، پھر  دو رکعت سنت پڑھ لے، اور اگر وقت ہو تو وتر سے پہلے پہلے  تہجد کی نماز پڑھ کر آخر میں وتر پڑھ لے،اس لیے کہ یہ عشاء کا آخری وقت  بھی ہے  اور  تہجد کا وقت بھی ۔

باقی مستحب عمل یہ ہے کہ وتر کو تہجد کے وقت تک مؤخر کرے، اور تہجد کے وقت  وتر ادا کرنے کی صورت میں افضل یہ ہے کہ پہلے تہجد کی نماز ادا کی جائے اس کے بعد وتر کی نماز پڑھی جائے، رسول اللہ ﷺ کا معمول اسی طرح تھا، تاہم اگر کوئی پہلے وتر کی نماز پڑھ کر پھر تہجد پڑھے تو یہ بھی جائز ہے، البتہ  افضل طریقے کے خلاف ہے۔

لہذا صورتِ  مسئولہ میں سائل عشاء کی نماز پہلے ادا کرے ، اس کے بعد دو رکعت  سنت پڑھ لینے کے بعد اگر وقت ہو توتہجد کی نماز پڑھ لے ،اس کے بعد وتر  کی نماز  پڑھ لے ۔ 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار):

"قال في البحر: فمنها ما في صحيح مسلم مرفوعاً: «أفضل الصلاة بعد الفريضة صلاة الليل». وروى الطبراني مرفوعاً: «لا بد من صلاة الليل ولو حلب شاة، وما كان بعد صلاة العشاء فهو من الليل». وهذا يفيد أن هذه السنة تحصل بالتنفل بعد صلاة العشاء قبل النوم. اهـ.
قلت: قد صرح بذلك في الحلية، ثم قال فيها بعد كلام: ثم غير خاف أن صلاة الليل المحثوث عليها هي التهجد. وقد ذكر القاضي حسين من الشافعية أنه في الاصطلاح التطوع بعد النوم، وأيد بما في معجم الطبراني من حديث الحجاج بن عمرو - رضي الله عنه - قال: «يحسب أحدكم إذا قام من الليل يصلي حتى يصبح أنه قد تهجد، إنما التهجد المرء يصلي الصلاة بعد رقدة»، غير أن في سنده ابن لهيعة وفيه مقال، لكن الظاهر رجحان حديث الطبراني الأول؛ لأنه تشريع قولي من الشارع صلى الله عليه وسلم بخلاف هذا، وبه ينتفي ما عن أحمد من قوله: قيام الليل من المغرب إلى طلوع الفجر اهـ ملخصاً.
أقول: الظاهر أن حديث الطبراني الأول بيان لكون وقته بعد صلاة العشاء، حتى لو نام ثم تطوع قبلها لايحصل السنة، فيكون حديث الطبراني الثاني مفسراً للأول، وهو أولى من إثبات التعارض والترجيح لأن فيه ترك العمل بأحدهما ولأنه يكون جارياً على الاصطلاح ولأنه المفهوم من إطلاق الآيات والأحاديث ولأن التهجد إزالة النوم بتكلف مثل: تأثم أي تحفظ عن الإثم؛ نعم صلاة الليل وقيام الليل أعم من التهجد، وبه يجاب عما أورد على قول الإمام أحمد هذا ما ظهر لي، والله أعلم"(2/ 24)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار):

"(و) تأخير (الوتر إلى آخر الليل لواثق بالانتباه) وإلا فقبل النوم، فإن فاق وصلى نوافل والحال أنه صلى الوتر أول الليل فإنه الأفضل.
(قوله: وتأخير الوتر إلخ) أي يستحب تأخيره، لقوله صلى الله عليه وسلم: «من خاف أن لايوتر من آخر الليل فليوتر أوله، ومن طمع أن يقوم آخره فليوتر آخر الليل، فإن صلاة آخر الليل مشهودة وذلك أفضل» ). رواه مسلم والترمذي وغيرهما. وتمامه في الحلية. وفي الصحيحين: «اجعلوا آخر صلاتكم باللیل وتراً» والأمر للندب بدليل ما قبله، بحر.(قوله: فإن فاق إلخ) أي إذا أوتر قبل النوم ثم استيقظ يصلي ما كتب له، ولا كراهة فيه بل هو مندوب، ولايعيد الوتر، لكن فاته الأفضل المفاد بحديث الصحيحين، إمداد.ولايقال: إن من لايثق بالانتباه فالتعجيل في حقه أفضل، كما في الخانية. فإذا انتبه بعدما عجل يتنفل ولاتفوته الأفضلية؛ لأنا نقول: المراد بالأفضلية في الحديث السابق هي المترتبة على ختم الصلاة بالوتر وقد فاتت، والتي حصلها هي أفضلية التعجيل عند خوف الفوات على التأخير، فافهم وتأمل" (1/ 369).

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144206200290

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں