بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

امام رکوع میں ہو تو آنے والے مقتدی کے لیے کس قدر قیام کرکے رکوع میں جانا ضروری ہے؟


سوال

امام رکوع میں ہو تو نو وارد کے لیے قیام کی فرض مقدار کیا ہوگی؟

جواب

اگر کوئی شخص ایسے وقت میں جماعت میں حاضر ہو جب کہ امام رکوع میں ہو تو سنت طریقہ یہ ہے کہ (نماز میں شامل ہونے کے لیے) کھڑے کھڑے  تکبیر تحریمہ کہہ کر ہاتھ باندھے، پھر دوسری تکبیر کہہ کر رکوع میں جائے، لیکن اگر کوئی تکبیرِ تحریمہ کہہ کر ہاتھ  باندھے بغیر رکوع میں چلا جائے تو قیام ادا ہوگیا،یعنی قیام کی حالت میں تکبیرِ تحریمہ  کہہ کر   رکوع تک پہنچنے میں جس قدر قیام  ہوا ،اس سے قیام کی فرضیت ادا ہوجائے گی اور  نماز ہوجائے  گی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 444):

"فلو كبر قائمًا فركع ولم يقف صح؛ لأن ما أتى به القيام إلى أن يبلغ الركوع يكفيه، قنية.

و في الرد:

(قوله: فركع) أي وقرأ في هويه قدر الفرض أو كان أخرس أو مقتديًا أو أخر القراءة."

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح (ص: 455):

"ومن أدرك إمامه راكعًا فكبر ووقف حتى رفع الإمام رأسه" من الركوع أو لم يقف بل انحط بمجرد إحرامه فرفع الإمام رأسه قبل ركوع المؤتم "لم يدرك الركعة" كما ورد عن ابن عمر رضي الله عنهما.

 قوله: "فرفع الإمام رأسه" مراده أنه رفع قبل أن يشاركه المؤتم في جزء من الركوع وإلا فظاهر التعبير بالفاء أن الرفع تحقق بعد الإنحطاط وحينئذ تحقق المشاركة فتكون الصلاة صحيحة قوله: "كما ورد عن ابن عمر رضي الله عنهما" ولفظه إذا أدركت الإمام راكعا فركعت قبل أن يرفع رأسه فقد أدركت الركعة وإن رفع قبل أن تركع فقد فاتتك الركعة".

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144209202166

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں