بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

اگر ایک صف میں بالغ اور نابالغ دونوں ہوں تو کیا حکم ہے؟


سوال

اگر ایک صف میں ایک بالغ   اور بہت سارے بچے نا بالغ ہوں   تو نماز ہوجائے گی؟

جواب

  صورت  مسئولہ  میں  بالغ اور  نابالغ دونوں  کی  نماز  ہوجائے  گی،اور نابالغ بچوں کے ساتھ ایک ہی صف میں کھڑے ہونے کی وجہ سے  بالغ شخص کی نماز پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔

البتہ یہ بات واضح رہے کہ بچوں کو مسجد میں لانے یا نہ لانے  سے متعلق  احکاماتِ  شرعیہ اعتدال پر مبنی ہیں، مطلقًا ہر قسم کے بچوں کو لانا جائز ہے ، نہ ہی  ہر قسم کے بچوں کو لانا منع ہے۔ بچوں کو مسجد میں لانے میں جہاں یہ اندیشہ ہے کہ مسجد میں شوروشغب ہوگا ،عبادات کاماحول متاثر ہوگا اوراپنی کم عمری کی وجہ سے  بسااوقات مسجد میں گندگی بھی کردیتے ہیں، جب کہ  مسجد شعائر اللہ میں داخل ہے، اس لیے اس کا تقدس و احترام بھی لازم ہے، اور  وہاں ہر قسم کا شور وشغب، بلکہ دنیاوی  باتیں کرنا بھی منع ہے،لیکن دوسری طرف  بچوں کواپنےساتھ  مسجدلانے میں یہ فوائدبھی  ہیں کہ ابتدا  ہی سے ان کی مسجد میں آکر نماز پڑھنے کی عادت بن جائے گی، جو کہ پسندیدہ چیز ہے۔

ایسےچھوٹے بچے جو مسجد کے آداب اور پاکی کا خیال نہیں رکھ سکتےاور ان کی وجہ سے دیگر نمازیوں کی نماز میں خلل پڑتا ہو  ان کو مسجد میں لانا مناسب نہیں ہے، البتہ سمجھ دار  بچے جو مسجد کی پاکی اور آداب کا خیال رکھ سکتے ہوں ان کو نماز کی ترغیب کے لیے مسجد میں لانا جائز بلکہ مستحسن ہے؛ تاکہ ان کو نماز کی عادت ہو ، البتہ ساتھ لانے والے کو چاہیے کہ وہ بچوں کو اپنے قریب کھڑا کرکے نماز پڑھائیں؛ تاکہ کسی کی  نماز میں خلل واقع نہ ہو۔

احادیثِ  مبارکہ ، شراحِ  حدیث اور فقہاءِ کرام کی عبارات میں غور کرنے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ   بچوں کو مسجد میں لانے یا نہ لانے سے متعلق حکم میں  بچوں کی  چند اقسام ہیں:

(1)  جو بچے اتنے ناسمجھ اور کم عمر ہوں کہ انہیں پاکی وناپاکی،اور مسجد اورغیرمسجد کا بالکل شعور نہ ہو اور ان سے مسجد ناپاک ہوجانے کا غالب گمان ہو توا نہیں مسجد میں لانا نہیں چاہیے، اس لیے کہ مسجد کو پاک  رکھنے کا حکم ہے  اور اس میں گندگی ، شوروشغب کرنا منع ہے، اس قسم کے بچوں سے متعلق احادیثِ  مبارکہ میں ہے کہ :

"جنّبوا مساجدكم صبيانكم ومجانينكم ... الخ."

"یعنی اپنی مسجدوں کو بچوں اور پاگلوں سے دور رکھو۔۔۔الخ"

(2)  جو بچے قریب البلوغ ہوں ان کو مسجد میں لانے کا اہتمام کرنا چاہیے،تاکہ ان  میں مسجد میں آنے اور باجماعت نماز پڑھنے کی عادت پیدا ہو، اسلام کےابتدائی دور سے اب تک ایسے بچے  بلانکیر مسجد میں آتے رہے ہیں۔

(3)   جو  بچے قریب البلوغ  نہ ہوں، لیکن ان  سے مسجد کے گندے ہونے کا  ڈر نہ ہو  اور  وہ   باشعور اور سمجھ دار ہوں ،   مسجد کا احترام ملحوظ رکھتے ہوں تو انہیں مسجد میں لانا بلا کراہت جائز ہے، بلکہ نماز کی عادت ڈالنے کے لیے انہیں مسجد میں لانا چاہیے، البتہ سرپرست کو ان کی نگرانی کرنی چاہیے ۔

(4)   جو   بچے  قریب  البلوغ  نہ  ہوں، اور   ان  سے مسجد کے گندے ہونے کا ڈر بھی نہ ہو، اور وہ تھوڑی بہت سمجھ رکھتے ہوں، لیکن وہ باشعور اور سمجھ دار نہ ہوں، مسجد کے احترام کو  نہ جانتے ہوں  اور ان کے گھر والوں نے ان کی ایسی تربیت نہیں کی ہو کہ وہ مسجد میں  آکر اپنی شرارتوں سے باز آجائیں تو  ایسے بچوں کو مسجد میں لانا درست تو ہے، لیکن کراہت سے خالی نہیں، اس لیے بہتر یہ ہے ایسے بچوں کو بھی مسجد نہ لایا جائے؛ کیوں کہ ان کی شرارتوں سے مسجد کا ادب واحترام باقی نہیں رہے گا، دوسرے نمازیوں کی نماز میں بھی خلل آئے گا اور خود سرپرست کوبھی اطمینانِ قلب نہیں رہے گا۔

(5) وہ بچے جو تھوڑی بہت سمجھ  رکھتے ہیں اور  ان سے مسجد کی بے حرمتی اور  ناپاک ہونے کا قوی اندیشہ نہ ہو،  لیکن وہ باشعور اور سمجھ دار نہ ہوں،  البتہ  ان کے گھر والوں نے ان کی ایسی تربیت کی ہو کہ وہ مسجد کا احترام کرتے ہوں تو ان کو  بھی مسجد میں لانا منع نہیں ہے۔

ان  سب  روایات  سے  معلوم  ہوتا ہے کہ مطلقًا  بچوں کو مسجد میں لانا منع نہیں ہے؛ بلکہ ممانعت وہاں ہے  جہاں ان سے مسجد کی تلویث کا اندیشہ ہو۔

و في البحر الرائق:

"(قوله: و يصف الرجال ثم الصبيانثم النساء)؛ لقوله عليه الصلاة والسلام: ليليني منكم أولو الأحلام والنهى ... و لم أر صريحًا حكم ما إذا صلى ومعه رجل و صبيّ، و إن كان داخلاً تحت قوله: "و الاثنان خلفه" و ظاهر حديث أنس أنه يسوي بين الرجل و الصبي و يكونان خلفه؛ فإنه قال:  فصففت أنا و اليتيم وراءه، و العجوز من ورائنا، و يقتضي أيضًا أن الصبيّ الواحد لايكون منفردًا عن صف الرجال بل يدخل في صفهم، و أن محلّ هذا الترتيب إنما هو عند حضور جمع من الرجال و جمع من الصبيان فحينئذ تؤخر الصبيان".

(البحر الرائق ، كتاب الصلاة، باب الإمامة 3 / 416 ط:دار الفكر)

التحریر المختار میں ہے:

"(قوله: ذكره في البحر بحثًا) قال الرحمتي: ربما يتعين في زماننا إدخال الصبيان في صفوف الرجال، لأنّ المعهود منهم إذا اجتمع صبيّان فأكثر تبطل صلاة بعضهم ببعض و ربما تعدّى ضررهم إلى إفساد صلاة الرجال، انتهى". 

(التحرير المختار، كتاب الصلاة، باب الإمامة  1 / 571 ط: سعيد)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"ويحرم إدخال صبيان ومجانين حيث غلب تنجيسهم وإلا فيكره.

(قوله: ويحرم إلخ) لما أخرجه المنذري مرفوعًا: «جنّبوا مساجدكم صبيانكم ومجانينكم، وبيعكم وشراءكم، ورفع أصواتكم، وسلّ سيوفكم، وإقامة حدودكم، وجمروها في الجمع، واجعلوا على أبوابها المطاهر»، بحر". 

(الدر المختار وحاشية ابن عابدين،كتاب الصلاة،باب ما يفسد الصلاة 1 / 656 ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410101087

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں