بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 جمادى الاخرى 1446ھ 09 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

اجير خاص کی اجرت كاحكم


سوال

ہمارے گاؤں کی مسجد میں ایک امام صاحب کافی عرصے سے امامت اور جمعہ پڑھانے پر مقرر ہیں، جن کے پاس اسناد وغیرہ موجود نہیں، مسجد کسی صاحب حیثیت کے زیر انتظام ہے، چنانچہ مذکورہ شخص نے مسجد پر تقریباً ایک کروڑ کی رقم لگا ئی اور اس کو بنوایا، جس نے بعد میں سابقہ امام کو برقرار رکھتے ہوئے دو  نئے اماموں کا تقرر اسی مسجد میں کیا، سابقہ امام کو پرانی ترتیب پر ماہانہ گندم وغیرہ مل جاتی ہے، جب کہ نئے مقرر شدہ دو اماموں میں ایک امام کی تنخواہ مسجد کا منتظم اپنی طرف سے ادا کرتا ہے اور دوسرے امام جو مسجد میں دروس جمعہ وغیرہ کے فرائض انجام دیتے ہیں، ان کی تنخواہ KPK حکومت کی ائمہ مساجد کے لیے مقرر شدہ وظیفہ سے ادا کی جاتی ہے، جس کے لیے مذکورہ امام کی اسناد KPKحکومت کی شرائط کے مطابق جمع کی گئی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ شرعی طور پر حکومت کی جانب سے وظیفہ کا ان تین اماموں میں کو ن حق دار ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جس امام کی اسناد KPKحکومت کی شرائط کے مطابق  حکومت کےپاس جمع ہیں اور حکومت نے اس بنیاد پر اس امام کے نام وظیفہ جاری کیا ہے، تو وہی امام مذکورہ وظیفہ کا حق دار ہے۔

 فتاوی شامی میں ہے:

"(والثاني) وهو الأجير (الخاص) ويسمى أجير وحد (وهو من يعمل لواحد عملا مؤقتا بالتخصيص ويستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة وإن لم يعمل."

(كتاب الإجارة، باب ضمان الأجير، ج: 6، ص: 69، ط: ايچ ايم سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144602100967

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں