بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اگر دنیا میں کسی پر حد جاری نہیں ہوئی تو کیا آخرت میں جاری ہوگی؟


سوال

اگر کسی نے دنیا میں کوئی ایسا کام کرلیا جس سے اُس پر شرعاً حد جاری ہوتی ہے، مثلا زنا کرلیا، شراب پی لی یا شرعی شرائط کے مطابق چوری کرلی وغیرہ، لیکن اُس پر اس دنیا میں حد جاری نہیں ہوئی (خواہ کسی بھی وجہ سے ہو)، پھر اُس شخص نے مرنے سے پہلے اپنے فعل سے توبہ کرلی اور توبہ نصوحا کرلی، تو کیا پھر بھی اُس پر آخرت میں حد جاری ہوگی؟

جواب

اگر کسی شخص نے دنیا میں ایسے جرم کا ارتکاب کیا، جس سے شرعاً اُس پر حد واجب ہوتی ہے، مگر اُس شخص کا معاملہ مسلمان قاضی کی عدالت میں نہیں پہنچ سکا، اور اُس نے اللہ سے اپنے کیے پر سچے دل سے شرائط کے مطابق توبہ کرلی، تو  حق اللہ کی جہت سے وہ حد ساقط ہوجائے گی، اور آخرت میں اُس پر حد جاری نہیں کی جائے گی، تاہم اگر اس جرم کے ذریعہ  اُس شخص نے کسی انسان کا مالی یا جانی نقصان کیا ہوگا، تو اُس کا ضمان اُس شخص پر لازم ہوگا، اگر دنیا میں اس کی تلافی نہیں کی جس کا نقصان کیا تھا اور اُس نے معاف بھی نہیں کیا، تو آخرت میں اس کا حساب دینا ہوگا۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وأجمعوا أنها لا تسقط الحد في الدنيا.

وقال عليه في الرد: (قوله وأجمعوا إلخ) الظاهر أن المراد أنها لا تسقط الحد الثابت عند الحاكم بعد الرفع إليه، أما قبله فيسقط الحد بالتوبة حتى في قطاع الطريق سواء كان قبل جنايتهم على نفس أو عضو أو مال أو كان بعد شيء من ذلك كما سيأتي في بابه، وبه صرح في البحر هنا خلافا لما في النهر، نعم يبقى عليهم حق العبد من القصاص إن قتلوا والضمان إن أخذوا المال، وقول البحر: والقطع إن أخذوا المال سبق قلم، وصوابه والضمان.

والحاصل أن بقاء حق العبد لا ينافي سقوط الحد، وكأنه في النهر توهم أن الباقي هو الحد وليس كذلك فافهم. وفي البحر عن الظهيرية: رجل أتى بفاحشة ثم تاب وأناب إلى الله تعالى فإنه لا يعلم القاضي بفاحشته لإقامة الحد عليه؛ لأن الستر مندوب إليه. اهـ.

وفي شرح الأشباه للبيري عن الجوهر: رجل شرب الخمر وزنى ثم تاب ولم يحد في الدنيا هل يحد له في الآخرة؟ قال: الحدود حقوق الله تعالى إلا أنه تعلق بها حق الناس وهو الانزجار، فإذا تاب توبة نصوحا أرجو أن لا يحد في الآخرة فإنه لا يكون أكثر من الكفر والردة وإنه يزول بالإسلام والتوبة."

(كتاب الحدود، ٤/٤، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144508102306

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں