کورٹ نے اگر کسی لڑکی کو خلع دیا ہو تو اس کا نکاح ہوسکتا ہے یا نہیں؟
کورٹ کے دیے ہوئے خلع سے مراد اگر یہ ہو کہ شوہر کورٹ میں حاضر نہ ہوا ہو اور اس نے زبانی یا تحریری طور پر خلع کو قبول نہ کیا ہو تو ایسے یک طرفہ عدالتی فیصلے کو شرعی خلع قرار نہیں دیا جاسکتا؛ کیوں کہ شرعی طور پر خلع کے معتبر ہونے کے لیے میاں بیوی دونوں کی رضامندی ضروری ہے، پھر جب خلع درست نہ ہوا تو اس لڑکی کا کسی دوسری جگہ نکاح کرنا بھی درست نہ ہو گا۔
ہاں! اگر شوہر نامرد ہو، یا مجنون ہو، یا مفقود (لاپتا ہو) ہو یا متعنت (ظالم) ہو کہ بیوی کا نان نفقہ نہ دیتا ہو اور ظلم کرتا ہو، پھر عورت اپنے اس دعویٰ کو شرعی گواہوں کے ذریعے عدالت کے سامنے ثابت بھی کرے۔ نیز متعلقہ صورت میں سے ہر ایک کی شرائطِ معتبرہ کی رعایت بھی رکھی جائے، تو ایسی صورت میں شوہر کی عدمِ موجودگی میں عدالت کا کیا ہوا فیصلہ شرعاً تنسیخِ نکاح کہلائے گا اور اس سے دونوں کا نکاح ختم ہو جائے گا اور لڑکی عدت گزارنے کے بعد دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہو گی۔
اگر ایسا نہ ہو یعنی شوہر نامرد، مجنون، مفقود، متعنت وغیرہ نہ ہو، لیکن کورٹ نے شوہر کی موجودگی میں ہی شوہر کی رضامندی سے خلع کی ڈگری جاری کی ہو یا شوہر نے از خود خلع کے کاغذات پر دستخط کیے ہوں تو یہ خلع شرعاً معتبر ہے، اس سے خلع واقع ہوجاتا ہے اور اس خلع کی عدت گزارنے کے بعد لڑکی دوسری جگہ نکاح بھی کر سکتی ہے۔
فتاوی شامی میں ہے :
"فقالت: خلعت نفسي بكذا، ففي ظاهر الرواية: لايتم الخلع ما لم يقبل بعده". (۳/۴۴۰، سعید)
بدائع الصنائع میں ہے :
"وأما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلاتقع الفرقة، ولايستحق العوض بدون القبول". (۳/۱۴۵، سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144204200277
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن