بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

باپ کے گھر بھیج دوں گا سے طلاق نہ ہوگی


سوال

اگر ایک شخص اپنی بیوی سے کہے کہ ’’قسم قرآن کی اگر آپ نے فلانی بات کسی کو بتائی تو میں تمہیں گھر (اپنے) بھیج دوں گا‘‘۔ اور جھگڑا بھی نہ تھا اور یہ سخت الفاظ از تنبیہ اور نصیحت کے (معاملے کی حساسیت کی وجہ سے) یوں کہا جب کہ اصلاً طلاق کی نیت نہ تھی، بلکہ تنبیہ، تو قسم کی وجہ سے طلاق ہوگی یہ نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ الفاظ "اگر آپ نے فلانی بات کسی کو بتائی تو میں تمہیں گھر (اپنے) بھیج دوں گا"  سے بیوی پر طلاق واقع نہیں ہوئی؛ اس لیے کہ یہ الفاظ دھمکی کے ہیں، طلاق واقع کرنے کے نہیں۔ تاہم اس طرح کے الفاظ استعمال کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3 / 759):

"وكذا لو قال لها في غضب: "اخرجي" ينوي التهديد لم يكن إذنًا؛ إذ المعنى حينئذٍ اخرجي حتى تطلقي اهـ ملخصًا".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3 / 300):

"(قوله: سرحتك) من السراح بفتح السين: وهو الإرسال أي أرسلتك لأني طلقتك أو لحاجة لي، وكذا فارقتك لأني طلقتك أو في هذا المنزل نهر".

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144202200383

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں