اگر ایک شخص اپنی بیوی سے کہے کہ ’’قسم قرآن کی اگر آپ نے فلانی بات کسی کو بتائی تو میں تمہیں گھر (اپنے) بھیج دوں گا‘‘۔ اور جھگڑا بھی نہ تھا اور یہ سخت الفاظ از تنبیہ اور نصیحت کے (معاملے کی حساسیت کی وجہ سے) یوں کہا جب کہ اصلاً طلاق کی نیت نہ تھی، بلکہ تنبیہ، تو قسم کی وجہ سے طلاق ہوگی یہ نہیں؟
صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ الفاظ "اگر آپ نے فلانی بات کسی کو بتائی تو میں تمہیں گھر (اپنے) بھیج دوں گا" سے بیوی پر طلاق واقع نہیں ہوئی؛ اس لیے کہ یہ الفاظ دھمکی کے ہیں، طلاق واقع کرنے کے نہیں۔ تاہم اس طرح کے الفاظ استعمال کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3 / 759):
"وكذا لو قال لها في غضب: "اخرجي" ينوي التهديد لم يكن إذنًا؛ إذ المعنى حينئذٍ اخرجي حتى تطلقي اهـ ملخصًا".
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3 / 300):
"(قوله: سرحتك) من السراح بفتح السين: وهو الإرسال أي أرسلتك لأني طلقتك أو لحاجة لي، وكذا فارقتك لأني طلقتك أو في هذا المنزل نهر".
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144202200383
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن