بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اگر یہ کام دوبارہ کیا تو میری بیوی مجھ پر حرام


سوال

میری شادی مورخہ 2021-02-19 کو ہونا قرار پائی ، میں ایک برے کام میں مبتلا تھا اور باز نہیں آ رہا تھا، اس کام کی خبر  میرے خاندان والوں کو ہو گئی،  بالخصوص میری ہمشیرہ کو جس پر ماحول کافی  خراب رہا،  لیکن اس گناہ کے کام کی بابت میری زوجہ کو علم نہیں ہے، عرض ہے کہ  اس برے کام سے روکنے کے لیےمیری ہمشیرہ نے مجھ سے قسم لی جس کے الفاظ مجھے  حرف بہ حرف یاد نہیں ،لیکن یہ قوی گمان ہے  کہ میرے الفاظ جو ادا ہوئے  وہ یہ تھے کہ،  اگر یہ کام میں نے دوبارہ دہرایا یا کیا،  "تو میری بیوی مجھ پر حرام ہے" یا" تو میری بیوی مجھ پر طلاق ہے"۔

عرض ہے کہ کچھ عرصہ گزرنے  کے بات مجھ سے یہ برا کام دوبارہ دانستہ اور بقائمی ہوش حواس کئی بار کم و بیش تین سے چار مرتبہ سرزد ہوا، یہ جانتے ہوئے بھی کہ میں قسم دے چکا ہوں، یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ قسم دیتے وقت او پر بیان کیے گئے جملہ میں سے کوئی  ایک جملہ صرف ایک ہی بار ادا ہوا ہے۔ 

 عرض ہے کہ بوجہ شرمندگی نہ میں گھر والوں کو بتا سکا اور نہ ہی زوجہ کو بتا سکا ہوں، لیکن عرصہ  کم و بیش چھ ماہ سے ذہنی اذیت کا شکار ہوں اور زوجہ  سے  میل ملاقات سکونت بھی جاری ہے ،لیکن زوجہ محترمہ دوسرے شہر میں ملازمت کرتی ہے اور مہینے میں آٹھ دس روزکے لیے اپنے  گھر ضرور آتی ہے اور ان کے گھر پر ٹھہرنے کے درمیان میاں بیوی کے  تمام ترتقاضے ہر لحاظ سے پورے ہوتے  ہیں ، جس میں میل ملا پ بھی شامل ہیں اور یہ قابلِ ذکر ہے کہ میری اور میری زوجہ کی ملاقات ہر ماہ ہر لحاظ سے ہوتی ہے۔ 

میں سمجھتا ہوں کہ جس وقت میں نے یہ قسم کا جملہ ادا کیا، اس وقت میرے دماغ و دل میں یہ گمان/ نیت تھی، کہ یہ  جملہ ادا کرنے سے میرا اور میری زوجہ کا مزید رشتہ کا قائم نہیں رہے گا اور ہمارے درمیان طلاق  واقع ہوجائے گی ، عرض یہ ہے کہ حرف بہ حرف  درست  اور سچ ہے کوئی امر مخفی  نہیں رکھا گیا۔

اب  یہ معاملہ میری زوجہ کے علم میں آ چکا ہے، اس لیے آپ سے استدعا ہے کہ بیان کردہ  واقعہ کے  مطابق شرعی طور پر اسلامی حکم سے آگاہ کریں اور اگر کوئی  راستہ موجود ہے تو تحریری طور پر فتوی جاری کریں ۔

وضاحت: غالب گمان یہ ہے کہ میں نے "حرام " کا لفظ استعمال کیاتھا، اور بہن بھی اسی کی  تائید کررہی ہے،اور یہ کلمات شادی کے بعد کہے تھے۔

جواب

واضح رہے کہ جب شوہر  اپنی بیوی کی طلاق کو کسی شرط کے ساتھ معلق کرتاہے، اور کہتاہے کہ اگر فلان کام ہوگیا تو  میری بیوی کو طلاق ہو، تو ایسی صورت میں جیسے ہی شرط پائی جائے تو طلاق واقع ہوجاتی ہے۔

لہذا صورتِ  مسئولہ میں  جب سائل نے  اپنی  بہن کے کہنے  پر یہ کہا کہ : "اگر یہ کام میں نے دوبارہ دہرایا  یا کیا تو  میری بیوی مجھ پر حرام ہے" یا "تو میری بیوی مجھ پر طلاق ہے" اور بعد میں  اس کام کو کئی بار کیا، تو سائل کی بیوی پر ایک طلاق واقع ہوگئی ہے ، کیوں کہ ایسی شرط کے ایک بار  پائے جانے سے طلاق واقع ہوکر شرط کا اثر ختم ہوجاتاہے ، البتہ  سائل  کا غالب گمان یہ ہے کہ اس نے  لفظ" حرام" کا استعمال کیاہے اور بہن بھی اسی  کی تائید کررہی ہے،  تو اس وجہ سے   جب سائل نے  پہلی بار اس کام کا ارتکاب کیاتھا،  توبیوی پر  ایک طلاق ِ بائن واقع ہو کر   میاں بیوی کا  نکاح ختم ہوگیا تھا اور  رجوع سے پہلے شوہر کے لیے ازدواجی تعلقات قائم کرنے کی گنجائش نہیں تھی، تاہم اس نے  ازدواجی  تعلقات  قائم کیا ہے ، تو اس پر استغفار کرے، لیکن  دوبارہ نکاح کو  برقر ار  کرنے کےلیے  شوہرگواہوں کی موجودگی میں نئے مہرکے ساتھ دوبارہ نکاح کرے ،  دوبارہ نکاح کی صورت میں آئندہ کے لیے شوہرکوصرف دوطلاق کاحق حاصل ہوگا۔

الجوہرۃ النیرۃ میں ہے:

"(وإذا أضاف الطلاق إلى شرط ‌وقع ‌عقيب ‌الشرط مثل أن يقول لامرأته إن دخلت الدار فأنت طالق) هذا بالاتفاق؛ لأن الملك قائم في الحال، والظاهر بقاؤه إلى وقت الشرط، ولأنه إذا علقه بالشرط صار عند وجود الشرط كالمتكلم بالطلاق في ذلك الوقت، فإذا وجد الشرط والمرأة في ملكه وقع الطلاق كأنه قال لها في ذلك الوقت أنت طالق."

[كتاب الطلاق، ج:2، ص: 39، ط: المطبعة الخيرية]

فتاوی شامی میں ہے:

"وإن ‌كان ‌الحرام ‌في ‌الأصل كناية يقع بها البائن لأنه لما غلب استعماله في الطلاق لم يبق كناية، ولذا لم يتوقف على النية أو دلالة الحال."

[كتاب الطلاق، باب الكنايات،ج:3، ص:299، ط:سعيد]

الدر المختار میں ہے:

"(وفيها) كلها (تنحل) أي تبطل (اليمين) ببطلان التعليق (إذا وجد الشرط مرة إلا في كلما فإنه ينحل بعد الثلاث) لاقتضائها عموم الأفعال."

[كتاب الطلاق، باب التعليق، ج:3، ص:352، ط:سعيد]

وفيه أيضا:

ــ"وينكح ‌مبانته بما دون الثلاث في العدة وبعدها بالإجماع."

[كتاب الطلاق، باب الرجعة، ج:3، ص:409، ط:سعيد]

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144309100004

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں