بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اگر آئندہ تم نے مجھے اس طرح بولا اور اس طرح میرے سامنے کھڑے ہو گئی تو تم مجھ پر حرام ہو گی کہنے کا حکم


سوال

دو سال پہلےمیری اور میری بیوی کی شدید لڑائی ہوئی . جس میں میری بیوی نے میرے  سامنے  کھڑے ہو کے اونچی آواز میں شدید غصہ کی حالت میں کہا کہ "میں تنگ آگئی ہوں اس رشتے سے ، میں تمہارے ساتھ نہیں رہ سکتی، ختم کرو اس رشتے کو ، میں تنگ آگئی ہوں اس رشتے سے!"،  تو میں نے فوراً اس کو تھپڑ مار کے چُپ کروا دیا . اس وقت وہ سنجیدہ ہو کر  شدید غصے کی حالت میں چیخ چیخ کر رشتہ  ختم کرنے کی ڈیمانڈ کر رہی تھی،  پھر لڑائی ختم ہو گئی اور تھوڑی دیر بعد میں نے اُسے کہا:  " اگر آئندہ  تم نے مجھے اس طرح بولا اور اس طرح میرے سامنے کھڑی ہو گئی تو تم مجھ پر حرام  ہو گی “ اس طرح کہنے میں میری نیت صرف اپنی بیوی کو ڈرانا تھا تا کہ  وہ دوبارہ اس طرح  نہ  کرے ،  پھر دو سال میں ایسا کچھ نہیں ہوا اور خوشی سے زندگی گزر رہی تھی  کہ  دو دن پہلے واٹس ایپ پر  میری اور بیوی کی ایک مسئلے پر بات ہوئی ، جس میں مَیں  اپنی بیوی کو اپنے آبائی گھر جانے کے لیے راضی کر رہا تھا اور ہم آپس میں بحث کر رہے تھے ،  میری بیوی میرے  آبائی گھر نہیں آتی جاتی کیوں کہ وہاں کچھ   ناگوار  باتیں ہوئی تھیں، لہٰذا  میں اُسے راضی کر رہا تھا کہ سب باتیں بھول جاؤ اور کم از کم خوشی و غمی میں چلی جایا کرو،  وہ اس پر نہیں مان رہی تھی، جب میں نے زیادہ زور لگایا تو وہ مجھے کہنے لگی کہ "تم اپنے گھر والوں کے ساتھ نہیں رہ  سکتے اور تمہیں لگتا  ہے  کہ  میں اس کی وجہ ہوں اور تم اپنے گھر والوں کو خفا نہیں کر سکتے، اور کوئی اور حل نہیں تو ایسا کرو  کہ مجھے چھوڑ دو؛  کیوں کہ میں وہاں نہیں جا سکتی،  میرا دل نہیں مانتا وہاں جانے کو

  اس دفعہ بات اُس نے پہلے والے غصہ کی طرح نہیں کہی،  بس دلیل دینے کے طور پر کی ہے ۔میں نے اپنی بیو ی سے پوچھا کہ "تم مجھ سے ڈیمانڈ کر رہی ہو  چھوڑنے کی؟" تو اس نے جواب دیا کہ " میں ایسا اس لیے بول رہی ہوں کہ اگر تمہیں لگتا ہے کہ تم اپنے  ماں باپ کا حق پورا نہیں کرسکتے اور یہاں میرے ساتھ کڑھ کڑھ کے زندگی گزار رہے ہو اور میری وجہ سے تم  اُن کے حق میں پکڑے جاؤ گے اور لوگ تمہیں بلیم کریں گے کہ تمہاری بیوی کی وجہ سے تمہارے ماں باپ خوار ہورہے ہیں، اور تم بھی بار بار کہتے ہو کہ کسی ایک بندے کو قربانی دینی پڑے گی تو پھر میں اپنے حقوق تمہیں معاف کردوں گی، تم جب بیوی اور والدین  دونوں کے حقوق  کو ساتھ نباہ نہیں سکتے، تو میں صرف اس بات پر کہہ رہی ہوں کہ پھر مجھے چھوڑ دوتاکہ تم اپنے ماں باپ کے حقوق میں نہ پکڑے جاؤ، میں نے بس اس لیے بولا تاکہ تمہاری پریشانی ختم ہوجائے اور میں ہی قربان ہوجاؤں۔"

مفتی صاحب کیا اس طرح بات کرنے سے وہ حرام کہنے والی بات واقع ہوئی یا نہیں ؟ مہربانی کر کے رہنمائی فرمائیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں  سائل نے جب دو سال پہلے  اپنی بیوی کے غصے کی حالت میں طلاق کا مطالبہ کرنے کے جواب میں اُس کو یہ الفاظ کہے تھے:   " اگر آئندہ  تم نے مجھے اس طرح بولا اور اس طرح میرے سامنے کھڑے ہو گئی تو تم مجھ پر حرام  ہو گی“، اور پھر دوسال بعد سائل کی بیوی نے بطورِ مشورہ سائل کو یہ الفاظ کہے: "تم اپنے گھر والوں کے ساتھ نہیں رہ  سکتے اور تمہیں لگتا  ہے  کہ  میں اس کی وجہ ہوں اور تم اپنے گھر والوں کو خفا نہیں کر سکتے، اور کوئی اور حل نہیں تو ایسا کرو  کہ مجھے چھوڑ دو؛  کیوں کہ میں وہاں نہیں جا سکتی،  میرا دل نہیں مانتا وہاں جانے کو"، تو  چوں کہ دو سال پہلے کے واقعہ میں سائل کےمطابق بیوی نے شدید غصے کی حالت میں اونچی آواز میں بطورِ مطالبۂ علیحدگی، مذکورہ جملہ کہا تھا، لہٰذا اگر سائل کی اپنی جملے میں "اس طرح" کہنے سے  مذکورہ تمام باتیں مراد تھیں  صرف تقاضائے طلاق مراد نہیں تھا، تو پھر حالیہ واقعے میں شرط نہ پائی جانے کی بناء پر سائل کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

البتہ آئندہ سائل اور اس کی بیوی کو احتیاط کرنی چاہیے؛ کیوں کہ آئندہ جب بھی سائل کی بیوی نے غصے کی حالت میں سائل کے  سامنے کھڑے ہوکر طلاق کا مطالبہ کیا، تو اُس پر ایک طلاقِ بائن واقع ہوجائے گی۔

فتاویٰ عالمگیریہ میں ہے:

"‌وإذا ‌أضافه ‌إلى ‌الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا."

(كتاب الطلاق، الباب الرابع في الطلاق بالشرط، الفصل الثالث في تعليق الطلاق بكلمة إن وإذا وغيرهما، ١/ ٤٢٠، ط: رشيدية)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"ومن الألفاظ المستعملة: ‌الطلاق ‌يلزمني، والحرام يلزمني، وعلي الطلاق، وعلي الحرام فيقع بلا نية للعرف.

وقال عليه في الرد: (قوله فيقع بلا نية للعرف) أي فيكون صريحا لا كناية، بدليل عدم اشتراط النية وإن كان الواقع في لفظ الحرام البائن لأن الصريح قد يقع به البائن كما مر."

(كتاب الطلاق، باب صريح الطلاق، 252/3، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144410100381

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں