میں آغاخانی (اسماعیلی شیعہ) کمیونٹی سے تعلّق رکھتا ہوں، میں اپنا نکاح ایک اہل سنت والجماعت (سنّی) لڑکی سے کرنا چاہتا ہوں، مجھے اس کا حل بتادیں، کیا اس کا واحد حل شیعہ مذہب چھوڑ کر سنی بننا ہوگا یا کوئی اور راستہ ہوسکتا ہے؟
آغاخانیوں کے بہت سے عقائدمسلمانوں کے بنیادی عقائد سے مختلف ہیں۔ آغا خانی شریعت مطہرہ کے بہت سے قطعی نصوص کے منکر ہیں۔ اور سنی مسلمان لڑکی کا نکاح درست ہونے کے لیے لڑکے کا مسلمان ہونا شرط ہے، لہذا آغاخانی لڑکے کا نکاح ، اہل سنت والجماعت مسلمان لڑکی سے جائز نہیں ہے، البتہ اگر سائل آغاخانی / اسماعیلی فرقے کے عقائد سے مکمل توبہ تائب ہوکر صدق دل سے دائرہ اسلام میں داخل ہو کر اہل سنت والجماعت کے عقائد کو تسلیم کرلیتا ہے تو اس کے بعد مذکورہ نکاح جائز ہوگا، ورنہ نہیں۔
بدائع الصنائع ميں ہے:
"ومنها إسلام الرجل إذا كانت المرأة مسلمة فلا يجوز إنكاح المؤمنة الكافر؛ لقوله تعالى: {ولا تنكحوا المشركين حتى يؤمنوا} [البقرة: 221] ولأن في إنكاح المؤمنة الكافر خوف وقوع المؤمنة في الكفر؛ لأن الزوج يدعوها إلى دينه، والنساء في العادات يتبعن الرجال فيما يؤثرون من الأفعال ويقلدونهم في الدين إليه وقعت الإشارة في آخر الآية بقوله عز وجل: {أولئك يدعون إلى النار} [البقرة: 221] لأنهم يدعون المؤمنات إلى الكفر، والدعاء إلى الكفر دعاء إلى النار؛ لأن الكفر يوجب النار، فكان نكاح الكافر المسلمة سببا داعيا إلى الحرام فكان حراما."
(كتاب النكاح، فصل اسلام الرجل اذا كانت المرأة مسلمة، 3/ 419، ط: سعید)
فتاوی شامی میں ہے:
" وبهذا ظهر أن الرافضي إن كان ممن يعتقد الألوهية في علي، أو أن جبريل غلط في الوحي، أو كان ينكر صحبة الصديق، أو يقذف السيدة الصديقة فهو كافر ؛ لمخالفته القواطع المعلومة من الدين بالضرورة، بخلاف ما إذا كان يفضل علياً أو يسب الصحابة ؛ فإنه مبتدع لا كافر، كما أوضحته في كتابي تنبيه الولاة والحكام علی أحكام شاتم خير الأنام أو أحد الصحابة الكرام عليه وعليهم الصلاة والسلام."
(كتاب النكاح، فصل في المحرمات، 3/ 46، ط: سعيد)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144603102314
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن