بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

افیون اور خشخاش کی خرید و فروخت کا حکم


سوال

ہمارے علاقہ میں تریاق، خشخاش افیون وغیرہ کے کاروبار کا رواج ہے، یعنی اپنی گاڑی اور موٹر سائیکل میں ڈال کر ایک مقام سے دوسرے مقام تک لے جا کر ایک مخصوص کرایہ وصول کرتے ہیں، آیا یہ کاروبار درست ہے؟ اور اس سے درآمد پیسہ حلال ہے؟ اور کیا مدارس والوں کے لیے یہ پیسہ لینا جائز ہے؟

واضح رہے کہ ان علاقوں میں کوئی دوسرا کاروبار و روزگار نہیں ہے، اور اگر اس علاقہ کے لوگ خود یہ کام نہ کریں تو دیگر اجنبی لوگ آ کر یہ کاروبار کرتے ہیں، جس کی وجہ سے علاقہ میں امن و امان نہیں رہتا۔

جواب

واضح رہے کہ جن اشیاء کا استعمال فی نفسہ جائز ہو اس کا کاروبار کرنا بھی شرعاً جائز ہوتاہے، اور جن اشیاء کا سرے سے استعمال ہی شرعاً ناجائز ہو تو اس کا کاروبار کرنا بھی حرام  ہوتا ہے اور اس کاروبار سے حاصل ہونے والی آمدنی بھی حرام ہوتی ہے، بصورتِ مسئولہ خشخاش اور افیون وغیرہ کا استعمال فی نفسہ چوں کہ  دوائی وغیرہ میں جائز ہے، جیسا کہ ان کو مقدارِ نشہ سے کم ادویہ میں استعمال کیا جاتا ہے اور  اس سے مختلف ادویہ تیار کی جاتی ہیں؛ لہٰذا اس نیت سے ان اشیاء کی خرید و فروخت کی اجازت ہو گی، ایک مقام سے دوسرے مقام تک منتقل کرنا بھی جائز ہو گا اور اس سے  جو آمدنی حاصل ہو گی وہ بھی  حلال ہو گی، نیز مدرسہ والوں کے لیے وہ رقم لینا بھی درست ہو گا۔

لیکن افیون کو ایسے لوگوں پر فروخت کرنا جو اس کا استعمال نشہ کے طور پر کرتےہیں، یا اس سے نشہ آور چیزیں  تیار کرتے ہیں،جان بوجھ کر  ایسے لوگوں کو افیون بیچنا یا فراہم کرنا شرعاً مکروہِ تحریمی ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وصح بيع غير الخمر) مما مر، ومفاده صحة بيع الحشيشة والأفيون.  قلت: وقد سئل ابن نجيم عن بيع الحشيشة هل يجوز؟ فكتب لايجوز، فيحمل على أن مراده بعدم الجواز عدم الحل".

(كتاب الاشربة، جلد:6، صفحہ:454، طبع:سعيد) 

فتاوی شامی میں ہے:

"(ويحرم أكل البنج والحشيشة) هي ورق القتب (والأفيون)؛ لأنه مفسد للعقل ويصد عن ذكر الله وعن الصلاة (لكن دون حرمة الخمر، فإن أكل شيئاً من ذلك لا حد عليه، وإن سكر) منه (بل يعزر بما دون الحد)، كذا في الجوهرة".

(كتاب الاشربة، جلد:6، صفحہ:457، طبع:سعيد)

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) جاز (بيع عصير) عنب (ممن) يعلم أنه (يتخذه خمراً)؛ لأن المعصية لاتقوم بعينه بل بعد تغيره، وقيل: يكره؛ لإعانته على المعصية، ونقل المصنف عن السراج والمشكلات أن قوله: ممن أي من كافر، أما بيعه من المسلم فيكره، ومثله في الجوهرة والباقاني وغيرهما، زاد القهستاني معزياً للخانية: أنه يكره بالاتفاق.
(قوله: ممن يعلم) فيه إشارة إلى أنه لو لم يعلم لم يكره بلا خلاف، قهستاني، (قوله: لاتقوم بعينه إلخ) يؤخذ منه أن المراد بما لاتقوم المعصية بعينه ما يحدث له بعد البيع وصف آخر يكون فيه قيام المعصية وأن ما تقوم المعصية بعينه ما توجد فيه على وصفه الموجود حالة البيع كالأمرد والسلاح ويأتي تمام الكلام عليه (قوله: أما بيعه من المسلم فيكره) لأنه إعانة على المعصية، قهستاني عن الجواهر.
أقول: وهو خلاف إطلاق المتون وتعليل الشروح بما مر وقال ط: وفيه أنه لايظهر إلا على قول من قال: إن الكفار غير مخاطبين بفروع الشريعة، والأصح خطابهم، وعليه فيكون إعانة على المعصية، فلا فرق بين المسلم والكافر في بيع العصير منهما، فتدبر اهـ ولايرد هذا على الإطلاق والتعليل المار".

(فصل فى البيع، جلد:6، صفحہ:391، طبع:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401101604

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں