بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

افیون کے استعمال کا حکم


سوال

افیون حرام ہے یا حلال؟

جواب

 نشہ کی غرض سے افیون   کا استعمال حرام ہے۔ البتہ  (بوقتِ ضرورت، بقدرِ ضرورت)   دوا  میں  استعمال جائز  ہے۔

مفتی اعظم ہندمفتی کفایت اللہ رحمہ اللہ ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:

’’افیون، چرس، بھنگ یہ تمام چیزیں پاک ہیں اوران کا دوا میں خارجی استعمال جائزہے، نشہ کی غرض سے ان کو استعمال کرنا ناجائزہے۔ مگران سب کی تجارت بوجہ فی الجملہ مباح الاستعمال ہونے کے مباح ہے، تجارت تو شراب اور خنزیر کی حرام ہے کہ ان کا استعمال خارجی بھی ناجائزہے‘‘۔

(کفایت المفتی، ج:9، ص:129، ط:دارالاشاعت) 

فتاوی شامی میں ہے:

"(ويحرم أكل البنج والحشيشة) هي ورق القتب (والأفيون)؛ لأنه مفسد للعقل ويصد عن ذكر الله وعن الصلاة (لكن دون حرمة الخمر، فإن أكل شيئًا من ذلك لا حد عليه وإن سكر) منه (بل يعزر بما دون الحد) كذا في الجوهرة".

(كتاب الأشربة، ج:6، ص:458، ط:سعيد)

وفیہ أیضاً:

"وبه علم أن المراد الأشربة المائعة، وأن البنج ونحوه من الجامدات إنما يحرم إذا أراد به السكر وهو الكثير منه، دون القليل المراد به التداوي ونحوه كالتطيب بالعنبر وجوزة الطيب، ونظير ذلك ما كان سميا قتالا كالمحمودة وهي السقمونيا ونحوها من الأدوية السمية".

(باب حد الشرب، مطلب في البنج والأفيون والحشيشة، ج:4، ص:42، ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144507100729

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں