بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

افیون کی آمدن والے کے ساتھ تجارت میں شریک ہونا


سوال

زید افیون کا کاروبار کرتا ہے اس کے آمدنی 90 فیصد افیون سے ہے اور عمرو حلال کاروبار کرتا ہے، اب زید عمرو کو کہتا ہے 100 لاکھ روپے میں فلاں جگہ میں (زید افیون کا کاروباری) خریدوں گا اور اس جگہ دکانیں تم (عمرو حلال کاروباری)بناؤگے، کیا عمرو کےلیے زید کے ساتھ شریک ہونا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ جن اشیاء کا استعمال فی نفسہ جائز ہو اس کا کاروبار کرنا بھی شرعاً جائز ہوتاہے، اور جن اشیاء کا سرے سے استعمال ہی شرعاً ناجائز ہو تو اس کا کاروبار کرنا بھی حرام  ہوتا ہے اور اس کاروبار سے حاصل ہونے والی آمدنی بھی حرام ہوتی ہے۔

نیز افیون کا استعمال فی نفسہ چوں کہ  دوائی وغیرہ میں جائز ہے، اس کو  ادویہ میں مقدارِ نشہ سے کم مقدار میں استعمال کیا جاتا ہے اور  اس سے مختلف ادویہ تیار کی جاتی ہیں،  اس لیے مقصدکے لیے سے اس کی خرید و فروخت کی اجازت ہو گی، اور اس سے  جو آمدنی حاصل ہو گی وہ بھی  حلال ہو گی، لیکن جو لوگ اس کا استعمال نشہ کے طور پر کرتےہیں، یا اس سے نشہ آور چیزیں  تیار کرتے ہیں،جان بوجھ کر  ایسے لوگوں کو افیون بیچنا یا فراہم کرنا شرعاً مکروہِ تحریمی ہے۔

لہذا صورت مسئولہ میں افیون کی آمدن کو مطلقاً حرام قرار دینا درست نہیں، اگر زید افیون ان لوگوں کو بیچتا ہو جو اسے ادویہ میں استعمال کرنے کے لیے خریدتے ہوں تو اس کی آمدن حلال ہوگی اور اس صورت میں اس کے ساتھ شراکت داری بھی جائز ہوگی، اور اگر وہ نشہ میں استعمال کرنے والوں کو بیچتا ہو  تو اس کی آمدن مکروہِ تحریمی ہوگی اور اس صورت میں اس کے ساتھ شراکت داری جائز نہیں ہوگی، نیز شراکت داری جائز ہونے کی صورت میں جن شرائط پر شراکت داری کی جارہی ہو اس کی تفصیلات لکھ کر پہلے دارالافتاء سے اس کا حکم معلوم کرلیا جائے پھر شراکت داری کا معاہدہ کیا جائے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وصح بيع غير الخمر) مما مر، ومفاده صحة بيع الحشيشة والأفيون.  قلت: وقد سئل ابن نجيم عن بيع الحشيشة هل يجوز؟ فكتب لايجوز، فيحمل على أن مراده بعدم الجواز عدم الحل."

(كتاب الأشربة، 6/ 454، ط:سعيد) 

وفيه أيضا:

"(ويحرم أكل البنج والحشيشة) هي ورق القتب (والأفيون)؛ لأنه مفسد للعقل ويصد عن ذكر الله وعن الصلاة (لكن دون حرمة الخمر، فإن أكل شيئاً من ذلك لا حد عليه، وإن سكر) منه (بل يعزر بما دون الحد)، كذا في الجوهرة."

(كتاب الأشربة،6/ 457، ط:سعيد)

مفتی اعظم ہندمفتی کفایت اللہ رحمہ اللہ ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:

’’افیون، چرس، بھنگ یہ تمام چیزیں پاک ہیں اوران کا دوا میں خارجی استعمال جائزہے، نشہ کی غرض سے ان کو استعمال کرنا ناجائزہے۔ مگران سب کی تجارت بوجہ فی الجملہ مباح الاستعمال ہونے کے مباح ہے، تجارت تو شراب اور خنزیر کی حرام ہے کہ ان کا استعمال خارجی بھی ناجائزہے۔‘‘

(کفایت المفتی 9/129،ط:دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504101144

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں