بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

افیون حرام ہے یا حلال ؟ کیا دوا کے طور پر استعمال کرنا جائز ہے؟


سوال

افیون حرام ہے یا حلال ؟ کیا آپ دوا کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں؟

جواب

نشہ کی غرض سے افیون   کا استعمال حرام  اور  قابلِ سزا  جرم ہے۔ البتہ  (بوقتِ ضرورت، بقدرِ ضرورت)   دوا  میں  استعمال جائز  ہے، اور ایسی دوا اگر کوئی مستند دین دار ڈاکٹر  تجویز کرے تو بطورِ علاج اس کے استعمال کی اجازت ہوگی اور اسی مقصد کے لیے خرید وفروخت کرنا بھی درست ہوگا۔

الدر المختار  میں ہے:

"(ويحرم أكل البنج والحشيشة) هي ورق القتب (والأفيون)؛ لأنه مفسد للعقل ويصد عن ذكر الله وعن الصلاة (لكن دون حرمة الخمر، فإن أكل شيئًا من ذلك لا حد عليه وإن سكر) منه (بل يعزر بما دون الحد) كذا في الجوهرة."

(الدر المختار مع رد المحتار: كتاب الأشربة (6/ 458)،ط. سعيد)

فتاوی شامی میں ہے:

"وبه علم أن المراد الأشربة المائعة، وأن البنج ونحوه من الجامدات إنما يحرم إذا أراد به السكر وهو الكثير منه، دون القليل المراد به التداوي ونحوه كالتطيب بالعنبر وجوزة الطيب، ونظير ذلك ما كان سميا قتالا كالمحمودة وهي السقمونيا ونحوها من الأدوية السمية."

(حاشية ابن عابدين: باب حد الشرب،  مطلب في البنج والأفيون والحشيشة (4/ 42)،ط. سعيد)

فقط، واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211201551

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں